دیوانے نہیں ہو جاتے
سید ضیا?الحق صاحب بیان کر تے ہیں کہ میں سی پی میں سب ا نسپکٹر تھا۔ بابا مرشد کے دربارمیں حاضر ہوتا تھاتو اماں صاحبہ کی زیارت سے بھی مشرف ہوتا تھا۔پہلی مرتبہ اماں صاحبہ کے یہاں حاضر ہوا تو دیکھا کہ اماںصاحبہ دو شالہ پہنے ہوے پھولوںکے ہار گلے میں ڈالے بےٹھی تھیں۔میرے ساتھ عبدالعزےز عرف نانا میں تھے۔ اماں صاحبہ نے ایک ہار ان کو دیاانھوں نے ادب سے چوما گلے سے لگآیا۔رومال میں لپیٹ کر جیب میں رکھا،دوسراہار اماں صاحبہ نے مجھے عنایت کیا۔میں نے اس کو زمین پر ڈال دیا۔باسی پھولوںکے مستعملہ ہار کی جو عزت عبدالعزےزصاحب نے کی تھی وہ بجائے خود میرے نزدیک مضحکہ خےز تھی میں بھلا پھر ایسے ہار کی کیا عزت کرتا۔اماں صاحبہ عبدالعزےز صاحب کی خےرو عافےت دریافت کر تی رہیں۔ میں دل میںخیال کر رہا تھا کہ ایک جوان عورت دنیاداری کی باتےں کر رہی ہے مگر لوگ ہیں کہ ٓٓاس کا ادب داحترام کر تے ہیں ولیہ سمجھتے ہیں۔ دفعتا اما ں صا حبہ نے میری طرف دیکھا میری ان کی نظریںچار ہونا تھاکہ میری آنکھوں سے آنسوﺅں کاچشمہ پھوٹ نکلا۔آنسو سے لپی ہوئی زمین پر پڑکر پھیل پھیل کر ساری زمین تر بتر ہوئی جارہی تھی ہحکپیاں بندھ گیئں،رنگ زر د ہو گیا ، جسم پر رعشہ طاری ہو گیا۔میری یہ حالات دیکھ کر عبدالعز یزصاحب نے اماں صاحبہ سے کہا یہ سب انسپکٹر پولیس ہیں آداب سے ناواقف ہیں آپ معاف فرمائیں۔اماں صاحبہ نے پھر میری طرف دیکھا آنکھیں چار ہوتے ہی آنسو خود بخود تھم گئے طبیعت بحا ل ہو گئی عبدالعزیز نے رخصت طلب کی۔اماں صاحبہ نے دعاﺅں کے ساتھ اجازت دی۔میںبھی آنے کو چلاآیا مگراب میرا جی چاہتاتھا کہ اماں صا حبہ کے قدموں سے جد انہ ہوں ۔عبدالعزیز صاحب سے معلوم ہوا کہ ا ب اماں آرام فرمائیں گیں۔کسی سے ملاقا ت نہ ہو گی شام کو بر آمد ہونںگی مگر دل نہ مانامیںجاکراماں صاحبہ کی قیام گاہ کے مو دب کھڑا ہو گیا۔دن گزر گیاشام ہونے کو آئی امان صاحبہ بر آمد ہوئیں۔آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا : ?دیوانے نہیں ہوجاتے۔
صبح نہیں تو شام
ایک دفعہ میں ملا زمت سے معطل ہوگیاسپرنٹنڈنٹ پولیس نے برخا ستگی کی تجویزکی۔ میں باباکی خدمت میں حاضرہوا۔مجمع تھا میں نے پشت پر کھڑے ہوئے عرض کیا: ?میںاپیل کر دوں?۔ فرمایا: ?ہو?۔ میں نے پھرعرض کیا: ?منظور ہو جائے گا؟? فرمایا: ?ہو?۔ اس کے بعد میں اماں صاحبہ کی خدمت میں حاضر ہوا،بغیر کچھ سنے آپ نے بابا مرشد کے حکم کی تشریح اس طرح بیان فرمائی۔ ?ریل کے تختے کی حجت زر زر کر تے، پچمڑی جاتے اپیل کر تے، صاحب کی آنکھوں سے انکھیاں لڑائے کھڑے رہتے، وہ کچھ کہنا تو نہیںمانتے، صبح نہیں تو شام اپیل منظور ھو جاتا?۔ میں پچمڑی پہنچا انسپکٹر جزل پو لیس کے سامنے اپیل کیا۔صبح صبح پیشی ہوئی صاحب نے کہاہم کچھ نہیں کر سکتے ۔البتہ تم توجوان ہو تمھار ی ز ندگی خراب نہ ہواس خیال سے ہم یہ کرسکتے ہیں کہ تمھیں سب انسپکٹرکی بجا ئیہیڈکا نسٹبل بنادیں بتاﺅ تمہیں یہ تجویز منظور ہے۔ ?میں نے کہا نہیں ۔? صاحب بہادر نے کہاتم خود سوچو اورہمیں جواب دو۔میں نے کہاسوچ لیا۔ہرگزمنظورنہیں۔ صاحب نے جھبخھلا کر حکم سنایاکہ:اپیل نا منظور۔ مےر ے پاﺅں تلے سے زمین نکل گئی۔ بابا مرشد اور اماں صا حبہ کو جی ہی جی میںبرابھلاکہناشروع کیا۔ دونوںنے اپیل منظور ہونے کا حکم دیاتھا۔ اماں صاحب نے صاف صاف فرمادیا تھاکہ صاحب کچھ کہتا ہے تو نہیں مانتے۔ اگر انہوں نے منع نہ کیا ہوتاتو میں ہید کانسٹبلی منظور کر لیتا۔ چند روز بعد پھر سب انسپکٹر ہو جاتا۔انہی خیالات میں پریشان غلطاں پیچاںصاحب کے کمرے سے باہر نکلا۔دوست احباب پوچھنے لگے۔ میںنے ماجرا کہہ سنآیا۔سب نے کہا تم نے برا کیا۔ صاحب کا کہنا نہ مانا۔مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔میں بیل گاڑی میں اسٹیشن پہنچا۔ٹکٹ لیا،ٹرین آی? تو میں اس میں سوار ہونے کو جگہ تلاش کر رہا تھا۔اچانک ایک پولیس افسر نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا آپ کا نام ہے ضیا?الحق؟ میں نے کہا جی ہاں۔پولیس افسر: آپ ٹرین میں سوارنہ ہوں میرے ساتھ چلیں۔میں گھبرا گیا۔خیال ہوا کہ اب مجھ پرکوی? مقدمہ چلآیا جاے گا۔ میں نے کہا میں ٹکٹ لے چکا ہوں۔مجھے جانا ہے۔پولیس افسرنے کہا۔میں تعمیل حکم پر مجبور ہوں۔ ٹکٹ واپس ہو جاے گا۔ آپ پولیس کے ساتھ ڈاک کی لاری میں کچمپری صاحب کے پاس جا?یںگے۔مجبورا ن مجھے ٹکٹ واپس کرنا پڑا۔اور پولیس کے ساتھ روانہ ہوکر صاحب بہادر کے دفتر میںصاضر ہونا پڑا۔وہاںدفتر والے دوست احباب نے مبارکباد دی۔میںنے تفصیل پوچھی تو کہا کچھ معلوم نہیںصرف اتنا معلوم ہے کہ آپ کو بر خا ستگی کاحکم سنانے کے بعد تےن فےصلے برخاستگی کے لکھے گے? ٹا?پ ہوے دستخط میںبھیجے گئے۔مگر ہر دفعہ صاحب نے چاک کر کے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیئے۔ آخر میں حکم دیا کہ ضیائالحق کو پیش کرو اس سے امید ہوتی ہے کہ شاید صاحب بہادر کا خیال اچھا ہو گیا ہے۔تم جاﺅ حاضر ہو جاﺅ۔اس مرتبہ ضد نہ کرنا،میں اندر گیا،سلام کیا۔صاحب بہادر نے کہا ضدی لڑکے ہم نے تم کو سب انسپکٹری پر بحال کیا جاﺅ میںسلام کر کے واپس ہوا تو شام کا وقت تھا۔اور ان الفاظ کی صداقت کا نقشہ میری آنکھوں مین پھر رہا تھاجو اماں صاحبہ نے فرمائے تھے۔ ?صبح نہیں توشام اپیل منظور ہو جاتا
تاج الاولیاءکے فیض یافتہ بچے
میرے آقا مولا کے فرمان کے مطابق : ?سوا لاکھ ولی بناﺅ ں گا? ?۔ یقینا آپ نے سوا لاکھ ولی میں سے بہت سے بنا دےئے ہیںاور قیا مت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ سب کا علم تو میرے بڑے سرکار بڑے دادا ہی کو ہو گا۔ بڑے دادا نے جس پر بھی نظر ڈال دی وہ کندن ہو گیا۔چو نکہ بڑے دادا پر اوےسی نسبت غالب تھی اس لئے آج بھی یہ رنگ ونسبت ان کے بہت سے بچوں میں ہے۔وےسے ہر حاضر ہونے والے کا اپنا معاملہ تھااور ہے۔اس نے اگر دنیا چاہی اسے بھر پور دنیا ملی۔اور جس نے آخرت مانگی اس کو آخرت کا سامان ملا اور جس نے اللہ اور اس کے رسول محمدﷺکو چاہا، میرے بڑے دادا نے اسے ولی اللہ بنا دیا۔ اس کورب تک رسائی کرا دی ۔جن بزرگو ںنے بڑے دادا سے فیض حاصل کیا۔ ان مین بعض نے بغیر مرید بنائے،خلافتےںدیںاور بعض نے بغیر مرید بنائے لاکھوںکو فیض پہنچایا اور یہ سلسلہ آج تک جاری وساری ہے۔پیر اور مرید کے تعلق سے میرے بڑے دادا کایک فرمان پہلے بھی عرض کر چکا ہوںاور پھر اس بات کو دہراتاہوں: ?مرید بیعت ہونے کے بعد،تین دن کے اندر سرکار رسالت مآبﷺمیںحاضر نہ ہو تو سمجھ لے کہ مرید، مرید نہیں۔اسی سے پےر کا حال بھی سمجھ میں آجائےگا۔? بڑے دادا کے فےض یافتہ حضرات،خواتین اور دےگر مزاہب کے افراد کے اسماءگرامی پیش کر رہا ہوں۔ان میں جن کے حالات زندگی مستند طو ر پر جس طرح بھی حاصل ہو سکے وہ بیان کئے جا رہے ہیں۔ یہ واضح کر دوں کہ ویسے توبڑے دادا کا ہر بچہ اپنی جگہ آفتاب ہے۔ لیکن جو ?سوا لاکھ ولی ?بنانے کا فرمایا ہے،جس میں سے بہت سے بنا دیئے اور باقی بنائےں گے۔ان میں سب سے زیادہ مقام،قرب اور نسبت بڑے دادا نے اماں بی بی مریم تاجی ﺭﺿ پھر حضرت یوسف شاہ تاجی کو عطا فرمایا ۔ بڑے دادا کی خدمت میں مادر زاد ولی بھی تھے۔دیگر سلاسل کے خلفاءبھی، خواتین بھی اور دیگر مزاہب کے افراد بھی فیض سے نوازے گئے۔یہ بڑے دادا کے اس قول کے مطابق ہے: ?طالب کو اس کی طلب کے مطابق تعلیم دیتا ہوں ? اور یہ سلسلہ قیامت باری رہے گا۔