نام و القاب
آپ کا نام سید محمد تاج الدینﺭﺿ اور پیار سے چراغ دین کہلاتے تھے۔ عرف عام میں باباتاج الدینﺭﺿ کہلائے ۔ایسے تو بڑے دادا (یعنی بابا تاج الدینﺭﺿ ) کے ہزار سے بھی زیادہ نام ہیں لیکن اس سمند میں سے ایک قطرہ پیس کرنے جررت کی ہے۔ آپ کےچند القاب یہ ہیں۔
تاج الاولیاء
تاج ملت و الدین
تاج الدین
تاج محی الدین
تاج معین الدین
تاج العارفین
تاج الملوک
سراج السالکین
شہنشا ہ ہفت اقلیم ۔
شہنشاہ ہفت اقلیم بابا مرشد کا ایسا لقب ہے جو تشریح و توضیح کا طلب ہے۔ ا س کی مختصر تشریح یو ں ہے کہ تمام عالم کو اللہ تعالیٰ کے نظامِ تکوین میں سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ جو سات ( ہفت ) اقلیم کہلاتے ہیں ۔ چنانچہ باعث ِ تکوین کائنات حضور ِ اکرم ﷺ کا وہ نائب جس کے انتظام و اختیار میں ساتوں اقلیم ہوتے ہیں۔ شہنشاہ ِ ہفت اقلیم کہلاتا ہے۔
سراجِ السالکین بابا مرشد کے اس لقب مبارک کا مطلب و تشریح یوں ہے کہ چراغ راہ چلنے والوں کے۔
تاجِ العارفین بابا مرشد کے اس لقب مبارک کا مطلب و تشریح یوں ہے کہ تاج اللہ شناسوں کے۔
امام حسن عسکری کے پوتے
ایک روز ارشاد ہوا کہ سوانح حیات قلمبند کرنے کے سلسلہ میں بابا مرشد کے نسب کی ہم کو تصدیق مطلوب تھی ۔ خود بابا مرشد نے ہم سے فرمایا کہ ?میں امام حسن عسکری کا پوتا ہوں?
?تاج قطبی ? کی اصلاح
ایک روز ارشاد ہو ا کہ حضور بابا مرشد ﺭﺿ کے حالات میں ایک کتاب ، ?تاج قطبی ?شائع ہوئی تھی۔ اس میں مصنف نے آپ کا نسب صدیقی لکھا تھا ۔ جب یہ کتاب حضور ﺭﺿ کو پیش کی گئی تو آپ نے اس کتاب کو ہاتھ میں لیتے ہی ازراہ کشف فرمایا کہ۔ ?اس کتاب میں میرا نسب غلط لکھا گیا ہے، میں صدیقی نہیں امام عسکریﺭﺿ کا پوتا ہوں ? سرکار تاج الاولیاءنے تاج قطبی دیکھ کر فرمایا تھا کہ ہم حضرت امام حسن عسکری ﺭﺿ کی اولاد ہیں۔ حضور ﷺکی زبان مبارک سے حضرت امام ﺭﺿ کا نام نامی سن کر مریدین کو سرکار کے مکمل نسب نامہ کی تلاش ہوئی ۔ حضرت مولانا عبد الکریم شاہ صاحب تاجی المعروف بابا محمد یوسف شاہ صاحب ﺭﺿ نے مثنوی اسرار ِ تاج میں اشارةً یہ ثابت کرنے کی سعی کی ہے کہ حضرت امام حسن عسکری ﺭﺿ کے پوتے سید عبد اللہ شاہ صاحب ﺭﺿ عرب سے مدراس تشریف لائے تھے لیکن یہ بات قادری کو مطمین نہیں کر پاتی تھی ۔ چنانچہ تلاش جاری رہی ۔ حسام الدین صاحب ﺭﺿ نے تذکرہ تاج الاولیاءشائع کیا ۔ اس میں سرکار کا نسب نامہ نظر سے گزرا اس کے بعد بھی کوشش جاری رکھی چنانچہ اس کوشش کے نتیجے میں سرکار والا نے کرم فرمایا اور میں نے در محبوب الہٰی کی طرف رجوع ہو کر خواجہ حسن ثانی نظامی کی خدمت میں ایک عریضہ پیش کیا اس کا جواب مجھے ٦٦/۰۱/۷۲ کو ملا ۔ اس کی روشنی میں سلسلہءحسب ذکر تاج میں شائع کیا ۔ اور جناب حسام الدین صاحب ﺭﺿ کا شائع شدہ نسب نامہ بھی شائع کر دیا۔
نسب نامہ سرکار تاج الاولیاء
حضرت سید محمد بابا تاج الدین اولیاءرحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید بدرالدین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید حیدر شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید عبد القادر شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید محی الدین سیاہ شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید جمال احمد شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید نصیر الدین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید کمال الدین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید عماد الدین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید علاﺅ الدین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید بہاﺅالدین نقشبندی رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید عبد اللہ شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید جلال الدین بخاری رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید کمال الدین بخاری رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید حسین لقب بہ محبوب رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید حسین اکبر صاحب رحمة اللہ علیہ
حضرت سید عبد اللہ شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ
حضرت سید فخر الدین شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید محمود رومی بن بلاق رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید حسین محمد تقی صاحب رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید عبد اللہ شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ
حضرت سید محمد جامع شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ
حضرت سید علی اکبر شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ
حضرت سید امام علی تقی رضی اللہ عنہ
حضرت سید امام موسیٰ رضی اللہ عنہ
حضرت سید امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ
حضرت سید امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ
حضرت سید امام محمد باقر رضی اللہ عنہ
حضرت سید امام زین العابدین رضی اللہ عنہ
حضرت سید امام حسین علیہ السلام
حضرت سید علی مرتضیٰ مشکل کشا کرم اللہ وجہ عنہ ،
سید سرکارِ دوعالم احمد مجتبٰی محمد مصطفےٰ ﷺ
عر ب سے ہندوستان تشریف آوری
حسن عسکری ﺭﺿ کی اولاد میں فضیل مہدی عبد اللہ عرب ، ہندوستان تشریف لائے اور جنوبی ہند کے ساحلی علاقے کولار مدر اس میں قیام کیا۔ حضرت فضیل مہدی عبد اللہ کے دو صاحبزادے حسن مہدی جلال الدین اور حسن مہدی رکن الدین سفر میں ان کے ساتھ تھے۔ بابا تاج الدینﺭﺿ ﺭﺿ ﺭﺿ حسن مہدی جلال الدین کی اولاد میں سے ہیں۔ یہاں آپ کے اجداد میں کئی صاحب ِ کرامت بزرگ گزرے۔ اس لئے آپﺭﺿ ﺭﺿ کا خاندان پیر زادگان کو لارکے نام سے مشہورہوا۔ اس زمانہ کے صاحب ِ اقتدار بادشاہ نے آپ کے بزرگوں کی درگاہوں کے لئے جاگیریںبھی نذر کیں ۔ یہاں پر ایک درگاہ سیدانی بی اماں صاحبہ ﺭﺿ کی بہت مشہورہے آپ کی سونے کی تربت ہے اور پانی کا چراغ جلتا ہے نمبر بے اپنی جاگیر سے دست بردار ہو کر فوج میں ملازم ہو کر صوبیدار میجر ہو کر ریٹائر ہوئے آپ پدک صوبیدار کے نام سے مشہور تھے ۔ آپ کے صاحبزادے خواجہ سید علی صاحب نے بھی فوج میں ملازمت کی اور صوبیدار رہے۔ آپ کے صاحبزادے سید حیدر شاہ صاحب تھے ۔ اور ایک صاحبزادی سیدانی اماں صاحبہ ﺭﺿ تھیں ۔ سیدانی اماں صاحبہ ﺭﺿ کی مخقہ واقعہ بھی پیش کرنا بے جا نہ ہو گا۔ آپ کے والد بزرگوار کسی سرکاری کام سے دورہ پر گئے ہوئے تھے۔ اسی دوران سیدانی اماں صاحبہﺭﺿ کا انتقال ہو گیا چونکہ محترمہ کے والد صاحب کے فوری پہنچنے کا امکان نہ تھا اس لیے آپ کی تدفین کر دی گئی۔ لیکن اس خیال سے کہ والد صاحب نے آخری بار چہرہ مبارک نہیں دیکھا تین روز کے لئے میت زمین کے سپرد کی گئی ۔ تدفین کے بعد جب لوگ واپس ہونے لگے تو ان میں سے بعض حضرات نے قبر کی جانب پلٹ کر دیکھا تو قبر پر پھولو ں کی تعداد بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ اور جب چالیس قدم جا کر سب فاتحہ کے لئے رکے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قبر پر پھولوں کا چبوترہ سا بن گیا ہے۔ تدفین کے دوسرے روز ان کے والد صاحب دورہ سے تشریف لائے اور ان کے اصرار پر تیسرے روز دیدار کے لئے قبر مبارک کھولی گئی تو قبر کے اندر بھی پھول موجود تھے انہیں ہٹاکر چہرہ مبارک دکھایا گیا ۔ تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ آرام فرما رہی ہیں ۔ آپ کی پیشانی مبارک پر پسینہ کے قطرہ بھی موجود تھے اور قبر مبارک خوشبو سے معطر تھی ۔ آپ کا مزار مبارک بلاری میں مرجع خلائق ہے۔ حضرت بابا مرشد کے دادا بزرگوار حضرت سید حیدر شاہ صاحب ﺭﺿ بسلسلہ ملازمت کا مٹی (ناگپور) جو سابق صوبہ سی ۔ پی میں واقع ہے تشریف لائے اور یہیں سکونت اختیار کر لی۔ آپ نے اپنے صاحبزادہ سید بدر الدین شاہ صاحب کی شادی حضرت سید میراں شاہ صاحب صوبیدار میجر پلٹن نمبر ۲۳ کی صاحبزادی مریم بی صاحبہ ﺭﺿ سے کی۔ ننھیالی عزیزوں میں آپ کی خالہ امیر بی صاحبہ ﺭﺿ کے صرف ایک صاحبزادہ عبدالجبار صاحب ﺭﺿ تھے جو سرکار کے وصال کے بعد درگاہ حضرت بابا مرشد ﺭﺿ کے سجادہ نشین مقر ر کئے گئے ۔ یہ حضرت تا حیات دربار کے پائیں میں بیٹھے تھے۔
ولادت کی بشارت
تاج الاولیاءحضرت بابا تاج الدین ناگپوری ﺭﺿ کی والدہ ماجدہ نے حضرت بابا مرشد ﺭﺿ کی پیدائش سے قبل ایک خواب دیکھا جس میں آپ کی ولادت کی بشارت دی گئی تھی انھوں نے دیکھا کہ ایک وسیع وسبط میدان ہے اس میدان میں ہزاروں شہر آباد ہیں اور مخلوق خدا بے حدو حساب ہے جس میں ہر مذہب و ملت کے لوگ آباد ہیں سردی کا موسم ہے چاند کی چودھویں تاریخ ہے اور چاند خوب چمک رہا ہے۔ ہر شخص چاندنی کے حسن سے سرشار اور پر کیف ہے۔ حضرت تاج الاولیائﺭﺿ کی والدہ ماجدہ نے دیکھا کہ چاند آسمان سے ٹوٹا اور ان کی گود میں اتر آیا۔ اسی سال آپ کی ولادت باسعادت عمل میں آئی۔
پیدائش
حضرت بابا سید محمد تاج الدین بمقام کامٹی ، محلہ گورے بازار اپنے مکان میں ۷۲ جنوری ۱٦۸۱ئ مطابق ۵۱ رجب المرجب ۷۷۲۱ ھ بروزدوشنبہ کو یہ سعادت سعید تولد ہوئے۔ آپ نے پیدائش کے وقت ہی اپنی کرامت سب پر ظاہر کی عام بچوں کی طرح پیداہوتے ہی نہیں روئے۔ بلکہ آنکھ بھی بند رکھی۔ جس کی وجہ سے آپ کے عزیزوں کو خیال ہو اکہ شاید بچہ بےجان پیدا ہوا ہے۔ لیکن تجربہ کار خواتین نے نبض دیکھی تو وہ جاری تھی ۔ اس لئے اس وقت کے رواج کے مطابق تانبے کے پیسے کو گرم کر کے آپ کی پریشانی پر داغا گیا۔ تب آپ نے آنکھیں کھولیں۔ ا ور بجائے رونے کے سب کی جانب مسکر اکر دیکھا۔ حضرت بابا مرشد ﺭﺿ کے نانا حضور فرماتے تھے کہ بابا مرشد کی والدہ محترمہ جب پیدا ہوئی تھیں ان کی بھی یہی کیفیت تھی۔ ان کو ٹوٹکے کے طور پر گھوڑے پر ڈالا گیا تھا ۔ اس کے بعد انہوں نے سانس لی اور آنکھیں کھولی تھیں۔ اس لئے ان کا نام مریم بی بی عرفیت گھوڑن بی بی رکھا گیا تھا۔
تعلیم و تربیت
حضرت بابا مرشد ﺭﺿ کے نہ کوئی حقیقی بھائی تھے نہ بہن آ پ اپنے والدین کے اکلوتے فرزند تھے ۔ جب آپ کی عمر ایک سال کی ہوئی تو والد بزرگوار جو رنگون کے سفر پر تھے انتقال ہو گیا ۔ چنانچہ آپ کی والدہ محترمہ عدت گزارنے کے بعد اپنے والد بزرگوار سید میراں شاہ صاحبﺭﺿ کے گھر چلی گئیں ۔ نانا حضور کے گھر حضرت بابا مرشدﺭﺿ کی پرورش ہوتی رہی جب آپ کی عمر (۹) سال ہوئی تو والدہ محترمہ بھی عالم جاویدانی سد ھار گئیں ۔ مابعد حضرت کی نانی صاحبہ نے آپ کی پرورش و پرواخت فرمائی ۔ آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو اپنے ابا حضور کے ذریعہ چھ سال کی عمر میں مدرسہ میں داخل کرایا۔ جہاں آپ نے حضرت مولوی اکرام الحسن صاحب اور حضرت مولوی اکرام الحق صاحب سے تعلیم حاصل کی ۔ اور عربی کے علاوہ فارسی ، اردو، انگریزی کی تعلیم بھی حاصل کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی کامٹی کے ایک کامل بزرگ حضرت عبداللہ شاہ صاحبﺭﺿ ایک روز آپ کے مدرسہ میں پہنچے اور معلم صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا ، ?تو انہیں کیا پڑھاتا ہے یہ تو علم لدنی کا مالک ہے ? پھرحضر ت بابا مرشد ﺭﺿ کی طرف دیکھ کر محبت سے فرمایا،? کم کھاﺅ ، کم بولو ، کم سوﺅ، اور قرآن شریف کی تلاوت کرو۔ بلکہ تلاوت کے وقت یہ سمجھو کہ تم پر قرآن کا نزول ہو رہا ہے ?اس کے بعد اپنی جھولی سے ایک چھوہارا نکالا اور اس کو چبا کر آدھا حصہ آپ کو عطا کیا ا س کے نوش فرماتے ہی حضرت باباصاحبﺭﺿ کی حالت بدل گئی ایک خاص کیفیت میں آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ تین دن تک یہی عالم رہا۔ حضرت بابا مرشد ﺭﺿ میں عام بچوں کی طرح شوخی و شرارت کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ آپ بالکل خاموش طبع واقع ہوئے تھے۔ آپ کی کسی ہم جماعت سے دوستی تھی اور نہ کھیل کود میں دلچسپی ۔ آپ کے نانا حضور نے آ پ کا یہ حال دیکھ کر دل بہلانے کیلئے آپ کو چند کبوتر خرید کر دیئے ۔ جن کی دیکھ بھال میں آپ دل بہلاتے تھے۔ جب آپ ذرا بڑے ہوئے نانا حضور ہی نے آپ کی سواری کے لئے ایک گھوڑا خرید کر دیا اس کے علاوہ حضرت باباصاحبﺭﺿ کے پاس ایک وائلین (باجہ) تھا جو آپ کو ورثہ میں ملا تھا۔ جسے آپ کبھی کبھی بجایا کرتے ۔ زیادہ وقت آپ اپنی تعلیم اور مذہبی کتب کے پڑھنے میں گزار تے تھے۔ آپ کو شروع ہی سے تنہا ئی پسند تھی۔آپ بے حد کم گو ،سلیم الطبع اور بے حد رحم دل تھے۔ اکثر تنہائی میں آپ مو لا نا رومﺭﺿ اور حافظ شیرازی ﺭﺿ کے اشعار گنگنا یا کر تے تھے۔خصوصی طور پرحافظ شیرازی کا مندر جہ ذیل شعرورد زبان رہتا تھا۔ مے خوروم، مصحف بسوز و آتش اندر کعبہ زن ساکن بت خانہ با ش و مر دم آزادی کمن یعنی شراب پی ، کتاب کو جلا دے ، کعبہ کو ڈھا دے ، اور بت خانہ میں بیٹھ لیکن مخلو ق خدا کو تکلیف نہ دے۔ ان پر ظلم و ستم نہ کر۔ (ان کی دل آزاری نہ کر) مخلوق خدا کی دل آزاری کا گناہ ان سب گناہوںسے زیا دہ ہے۔ حضرت بابا مرشد ﺭﺿ کی عملی زندگی بالکل اس شعر کی شرح تھی۔ آپ کا حاصل زندگی یہی رہا ساری زندگی آپ نے مخلوق خدا کی خد مت کی ۔ کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ آپ نے کسی کا دل دکھا یا ہو۔ جس بچے کا بچپن میں یہ عمل رہا ہو اس کا عا لم شباب میں کیا حال ہو گا۔ حضرت باباصاحب ﺭﺿ کے مدرسہ میں داخل ہو نے کے بعد ہی کا مٹی کے بزرگ نے پیشگوئی کر دی تھی۔ کہ یہ بچہ علم لد نی کا مالک ہے۔ ظاہر ہے کہ سر کا ر بابا مرشد ﺭﺿ نے ۳۱،۲۱ سال کی عمر میں ظاہری تعلیم کیا حاصل کی ہو گی۔ با طنی تعلیم ہی تھی کہ آ پ دینی و دنیا وی مسائل میں ہر مسئلہ کو حل کر دیتے تھے۔اس کے بعد دنیا نے بھی دیکھا کہ آپ کی خد مت میں ما در ذات ولی ہے۔ایام طفولیت ہی میں آپ بالکل تنہا ئی پسند رہے ہیں۔آپ کی گو شہ نشینی میں انوار تجلیات غیبی کا ظہور رجال الغیب سے ملا قاتیں اور بات چیت ، لہو و لعب سے بے اعتنائی اور ذکر و فکر کی محویت، یہ ساری باتیں عالم شباب کی غیر مر ئی حقیقتوں کی طرف رہنمائی کر تی تھیں۔ علم با طن:
حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوی ﺭﺿ نے بھی ظاہری تعلیم حاصل نہیں کی تھی ایک روز آپ حضرت شیخ خواجگی ﺭﺿ کی خد مت میں حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا ?میں نے علم حاصل نہیں کیا خصوصاً علم فقہہ میں مجھے بالکل درک نہیں ہے۔ اس لئے مجھے کیا کر نا چاہیئے؟? حضرت خواجگیﺭﺿ نے فر ما یا? تم علم با طن حاصلﺭﺿ کر نے میں مشغول رہو کہ اس راہ میں تمام اصول فروغ ہیں اور فروع اصول ہیں۔ یہ حاصل ہوئے تو تمہارے لئے آئندہ کوئی مشکل نہ رہے گی اللہ تعالیٰ کے کرم سے آپ ﺭﺿ اس مر تبے پر پہنچ گئے اور دنیا نے دیکھا کہ دنیا وی تمام عالم کے ما ہر آپ کی خد مت میں حاضر ہو کر مستفیض ہو تے تھے۔ ریا ضت:
پندر ہ سال کی عمرہی میں آپ عر بی ،اردو، فارسی اور انگریزی علوم سے فارغ ہو کر سید میراں شاہ صاحب ﺭﺿ کے مکان سے لا پتہ ہو گئے۔ آپ کے نا نا حضور نے آپ کی بہت تلاش کی اخبارات میں اشتہارات دیئے۔ انعام مقرر کیا لیکن حضور کا کہیں بھی پتہ نہ چلا آخر تھک ہار کر اللہ کے سپر د کر کے خاموش بیٹھ گئے۔ آپ کو حضرت باباصاحب ﺭﺿ سے اس قدر محبت تھی کہ ان کی جدائی بر داشت نہ ہوئی اور چند سال بعد آپ کا بھی انتقال ہو گیا۔ حضرت بابا مرشد ﺭﺿ نے گھر سے نکلنے کے بعد یہ زمانہ جنگلوں میں خصوصی ر یا ضت میں گزارا ۔ یہ مقام گونڈوانہ کہلا تا ہے۔ یہاں کے با شندوں میں جا دو گروں کی کثرت تھی۔ بلکہ وہ خطہ ہی جا دو گروں کا خطہ کہلا تا تھا۔ آپ کے وہاں قیام سے ان با شندوں کے جا دو کے اثرات ختم ہو گئے یہی ان کا ذریعہ معاش تھا جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان ہو گئے اور اپنے گرو ہ سے آکر اپنے کا روبار کے نہ چلنے کی شکا یت کی۔ گر و ہ نے ان کے حالات سن کرا نہیں بتا یا کہ ہمارے علا قہ میں ایک بزرگ آیا ہے۔ اور وہ الٹا لٹک کر ریا ضت کر رہا ہے۔ جب تک اس کا قیام ہمارے علا قہ میں رہے گا ہمارے جا دو بے اثر رہیں گے۔ یہ سن کر ان لو گوں نے حضرت بابا مرشد ﺭﺿ پر ہی جا دو کر نا شروع کیا تا کہ وہ یہاں سے چلے جائیں۔ جب فرداًفرداً جا دو کا حضرت پر کوئی اثر نہ ہوا تو انہوں نے ایک پنچایت مقرر کی اور ایک دن مقرر کر کے اجتماعی حیثیت سے جا دو شروع کیا۔ اللہ کے کرم سے اس کا بھی کوئی اثر نہ ہوا۔ بلکہ یہ اجتماعی جا دو کا الٹا اثر انہیں لو گوں پر ہوا۔ کوئی ہاتھ سے، کوئی پیر سے، کوئی بینائی سے ،کوئی زبان سے، بیکار ہو گیا تب تو وہ سب بے حد پریشان ہوئے اور ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اب یہ سمجھ عطا کی کہ یہ تو بہت بڑے ولی اللہ معلوم ہو تے ہیں۔اس لئے کہ ہمارے اجتماعی جا دو کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔بلکہ الٹا ہم لوگوں کو نقصان پہنچا۔ چنانچہ یہ سب لوگ حضرت بابا مرشد ﺭﺿ کی خد مت میں اس درخت کے پاس پہنچے جہاں سر کار تاج الا ولیاءالٹے لٹک کر ریا ضت کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ جیسے ہی یہ تمام لوگ جن میں وہ مندور جنہیں جا دو کر نے کی سزا ملی تھی شا مل تھے۔ درخت کے پاس پہنچے تو تمام اپنی اصلی حالت میں آگئے (یعنی سب تندرست ہو گئے) اور سب قد م بوس ہو گئے چونکہ سر کار اس وقت بھی ریا ضت الہٰی میں مصروف تھے۔ اس لئے یہ لوگ واپس آگئے۔ لیکن اپنے دو آدمیوں کی ڈیوٹی لگا دی کہ یہ لوگ حضور کی خد مت میں حاضر رہیں ۔ جیسے ہی سر کار درخت سے نیچے آئیں گے۔ اس کی اطلاع پورے قبیلہ کو کر دیں گے۔ تا کہ سب لوگ حاضر ہو کر سر کار سے اپنے کئے کی معافی طلب کریں۔ اور سر کار کی امکانی خد مت کریں۔ سر کار مستقل دوسال تک اسی طرح ریاضت الہٰی میں مشغول رہے۔ دوسال بعد جب آپ درخت سے نیچے تشریف لائے تو ان دو حضرات نے جن کی با ری باری ڈیوٹی ہو تی تھی۔ فوراً جا کر اپنے قبیلے کے لو گوں کو اطلاع دی ۔ قبیلہ کے تمام لوگ جن میں عورتیں بچے،بوڑھے،جوان سب شامل تھے۔ جن کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ تھی۔ وقفہ وقفہ سے اسی طرح تین حاضر خد مت ہوئے اور سر کار سے معافی کے خواستگار ہوئے ۔ حضور نے ان سب کو دعاﺅں کے ساتھ معاف کیا۔ یہ تمام لوگ بابا مرشد ﺭﺿ کے دست حق پر مشرف بہ اسلام ہوئے اور بیعت حاصل کی۔ اور چنددنوں تک سر کار کی بے حد خدمت کی۔ یہ لوگ سی ۔پی کے علا قہ میں گونڈ کہلا تے ہیں۔ ثعلب مصری اور جنگل کی جڑی بوٹیاں بھی فروخت کر تے ہیں۔ اس زمانہ میں ان لوگوں سے جب دریافت کیا جا تا تھا کہ تمہارے مر شد کون ہیں تو وہ سر کار تاج اا و لیاءکا اسم گرامی بتا تے تھے۔
جوانی
جب آپ کا مٹی تشریف لا ئے تو آپ کی عمر شریف ۷۱ سترہ سال ہو چکی تھی۔نا نا حضور تو آپ کے غم میں انتقال فر ما چکے تھے۔ آپ کے ما موں سید عبدالرحمن صاحب آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔آپ کا حال تو کچھ ایسا ہو گیا تھا (یاد الہٰی میں) کہ آپ بالکل تنہائی پسند ہوگئے تھے۔اکثر بے معنی الفاظ استعمال کر تے تھے۔ اسی دوران ۹۷۸۱ءمیں کنہان ندی میں پانی بڑھ جا نے سے کا مٹی میں سیلاب آگیا اور تقریباً آدھی آبادی تباہی کی چپےٹ میں آگئی۔بہت سے مکان بہہ گئے۔اس میں بابا مرشد ﺭﺿ کے نا نا کا مکان بھی تھا۔ یہ طغیانی سید عبدالرحمن صاحب کا تمام اثاثہ بھی بہا لے گئی۔جس کی وجہ سے عبدالرحمن صاحب بے حد پریشان ہو گئے۔سر کار نے انہیں تسلی دی اور مشورہ دیا کہ ہم دونوں ملا ز مت کر لیتے ہیں۔انشاءاللہ سب بہتر ہو جائیگا۔اورآپنے ان کیلئے دعا کی انہیں محکمہ جنگلات میں داروغہ کے عہدہ پر ملا ز مت مل گئی۔اس وقت بابا مرشد ﺭﺿ کی عمر ۸۱ سال تھی۔ان کے ما موں صاحب نے انہیں فوج میں بھر تی ہو نے کی صلاح دی مگر نا نی کی محبت آڑے آئی اور آ پ فوج میں جا تے جا تے رک گئے۔دو سال تک آپ مزید ملازمت سے دور رہے۔
ملازمت
لیکن ۱۸۸۱ءمیں جب آپ کی عمر ۰۲ سال تھی آپ فوج میں بھر تی ہوگئے۔ اس کیلئے آپ نے بڑی مشکل سے نا نی صاحبہ کو راضی کیا۔ آ پ کا اونچا قد،مضبوط جسم اور عمدہ صحت فوج میں بھر تی ہو نے کیلئے معاون ثابت ہوئی۔ حضرت بابا مرشدﺭﺿ ۱۸۸۱ءمیں ناگپور کی رجمنٹ نمبر ۸میں نا ئک مقرر ہوئے جو مدراسی پلٹن کہلا تی تھی۔ دوران ملا ز مت بھی آپ کے شغل واشغال (ریا ضت الہٰی) میں فرق نہیںآیا۔ ڈیوٹی کے اوقات کے بعد آپ کو عبادت الہٰی ہی میں مصروف دیکھا گیا۔ اور رات میںبلند آواز سے حافظ شیرازی ﺭﺿ اور مو لا نا روم ﺭﺿ کے اشعار بھی پڑھتے سنا گیا ۔ آپ کے افسران آپ کی سادہ زندگی اور راست گوئی کی وجہ سے بے حد مہربان تھے۔ ایک امریکی افسر مسٹر بنیس کو بابا مرشد ﺭﺿ نے قر آن شریف کی تعلیم دی۔یہیں ایک دوسرے فوجی افسرمسٹر ولیم نے بابا مرشد سے روحانی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں وہ کلکتہ چلے گئے۔ اور بقیہ زندگی ایک قبرستان میں گزار دی۔ فوج کے ساتھ بابا مرشد نے کئی ممالک کا سفر کیا۔ آپ نمازکے اس قدر پابند تھے کہ نماز کے مقابلہ میں کسی چیز کی پر واہ نہیں کر تے تھے۔ فوج کی ملاز مت کے دوران بھی باباصاحب ﺭﺿ ہمیشہ نماز اور ریاضت میں پابندی کر تے تھے۔ اور اس میں کبھی نا غہ نہیںہو نے دیتے تھے۔ ان کی روز مرہ کی زندگی میں ایک نظم تھا۔ کئی سال آپنے کا مٹی میں گزار ے تین سال بعد آپ کی رجمنٹ کے دو حصے کر دیئے گئے۔ ایک حصہ کا مٹی میں رہا اور دوسرا حصہ سا گر چھاﺅنی روانہ کر دیا گیا۔ ساگر والے حصہ میں آپ بھی شامل کر لئے گئے یہ ۴۸۸۱ءمیں ہوا۔ آپ نے اپنی نا نی صاحبہ اور دیگر عزیزوں کی رہائش کا انتظام کیا اور سا گر (سی۔پی) روانہ ہو گئے یہاں بھی آپ کی عبادت ریاضت،شغل و اشغال اسی طرح جاری رہے۔ ملا ز مت سے چھٹی لیکر ایک مر تبہ آپ نا نی صاحبہ ﺭﺿ کی خد مت میں بھی تشریف لائے تھے۔ چند روز قیام فر ما کر واپس تشریف لے گئے۔ اب حضرت بابا مرشد ﺭﺿ کی عبادت و ریاضت اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ تاج الدین بابا ﺭﺿ فوج میں بھر تی ہو نے کے بعد سا گر ڈ پومیں تعینات کئے گئے تھے۔ رات کے ۹ بجے گنتی سے فارغ ہو کر بابا داﺅد مکی ﺭﺿ کے مزار پر تشریف لے جا تے ۔ وہاں صبح تک مراقبہ اور مشاہدہ میں مصروف رہتے اور صبح سویرے پریڈ کے وقت ڈپو میں پہنچ جا تے یہ مشغلہ پورے ۲ دو سال تک جاری رہا۔ دو سال بعد بھی ہفتہ میں ایک دو بار ان کے یہاں حاضری ضرور دیا کر تے تھے۔ جب تک سا گر میں رہے اس معمول میں فرق نہیں آیا۔ کا مٹی میں بابا تاج الدینﺭﺿ کی نا نی کو جب اس بات کی خبر ملی کہ نواسہ راتوں کو غائب رہتا ہے تو خیال آیا کہ شاید آپ بری صحبتوں کا شکار ہو کر بے راہ رو ہو گئے ہیں۔ یہ سوچ کر نا نی صاحبہ نے اس خبر کو سچ پا یا کہ نواسہ رات کو کہیں جا تا ہے۔ ایک رات کہیں با ہر رہ کر صبح بابا مرشد گھر آئے تو نا نی نے ناشتہ سامنے رکھا۔ بابا مرشدﺭﺿ نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ بھوک نہیں ہے۔ اس جواب سے نا نی مزید فکر مند ہوئیں اور پکا ارادہ کر لیا کہ رات کو نواسے کا تعاقب کر کے دیکھیں گیں کہ وہ کہاں جا تا ہے۔ رات کو جب بابا مرشدﺭﺿ ویرانے کی طرف روانہ ہوئے ،نا نی بھی نظر بچا کر چپکے چپکے پیچھے ہولیں۔ دیکھا کہ نوا سہ ایک مزار کے اندر داخل ہوا۔ چند ے انتظار کے بعد اندر جا کر دیکھا تو بابا مرشد ﺭﺿ ذکر و فکر میں مشغول تھے۔ نواسے کو عبادت و ریاضت میں حددرجہ مستغرق دیکھ کر نا نی صاحبہﺭﺿ کے دل کا بوجھ اتر گیا۔ انہوں نے بابا مرشدﺭﺿ کو بہت دعائیں دیں اور خاموشی سے واپس چلی آئیں۔ بابا صا حب ﺭﺿ صبح کو نا نی کے پاس آئے تو ان کے ہا توں میں چھوٹے چھوٹے پتھر تھے۔نانی صاحبہﺭﺿ نے ناشتہ پیش کیا تو بابا صا حب نے پتھر دیکھاتے ہوئے کہا: ?نانی !میں تو یہ لڈو پیڑے کھاتا ہوں? یہ کہہ کر بابا مرشد ﺭﺿ نے پتھر وں کو یوں کھا نا شروع کیا جیسے کوئی مٹھائی کھا تا ہے۔ نو اسے کی یہ کیفیت دیکھ کر نا نی کو کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
مجاہدات
جو خد شات لیکر آئی تھیں۔ اس کے بر عکس پا یا۔حضور بابا مرشد ﺭﺿ نے نا نی صاحبہ ﺭﺿ کو اطمینان دلا یا ۔چنانچہ وہ حضرت بابا مرشد ﺭﺿ کو اللہ کے سپرد کر کے کا مٹی روانہ ہو گئیں۔ حضرت بابا مرشد ﺭﺿ ملا ز مت کے اوقات کے بعد جو بھی موقعہ ملتا اپنے شیخ کی خدمت اور رات کو حضرت داﺅد مکی ﺭﺿ کے مزار مبارک پر گزار تے ۔ ایک عرصہ کے بعد ایک مبارک رات آپ کے پاس مقبولیت کا پیغام لیکر آئی اس وقت آپ ذکر سے گذر کر مذکور سے مشرف ہوئے۔ اللہ اللہ بانگ ہست دیا صدا بے مسمیٰ اسم کے با شدرد!! اسم میجوئی مسمیٰ رانجو !! بے مسمیٰ اسم کے با شد نکو (مو لینا روم ﺭﺿ ) اور غیب سے آواز آئی؛ ،?مانگ کیا مانگتا ہے ? یہ آواز یں کئی بار سنیں ۔اس کے جواب میں آپنے فر ما یا: ?اے خدا ، اے میرے اللہ ! تجھ سے تجھی کو مانگتا ہوں?۔ تیر نشانہ پر لگا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی ذاتی سے آپ کو نوازہ۔ اس تجلی میں آپ گم ہوگئے۔ اور خدا آشکار ہو گیا۔ اذرا او ھم ذکو اللہ، اب خود کو دیکھ کر خدا یا د آنے لگا۔ اور اپنی محدود ہستی اور اس کے تمام تقاضے ختم ہو گئے۔ جب آپ واپس تشریف لائے تو اس سے پہلے ملاءاعلیٰ میں آسمان دنیوی پر آپ کی مقبولیت اور محبوبیت کی منادی بار گاہ الہٰی سے ہو چکی تھی۔ جیسا کہ وارد ہوا ہے۔ تر جمہ: حضرت ابو ہریرہ ﺭﺿ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فر ما یا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندہ سے محبت کر تا ہے تو (حضرت) جبرئیل کوندا کر تا ہے کہ میں فلاں بندہ سے محبت کر تا ہوں۔ تم بھی اس سے محبت کرو۔ پس (حضرت )جبرئیل اس سے محبت کر تے ہیں۔ اس کے بعد آسماں میں پکار کر کہتے ہیں کہ فلاں شخص سے اللہ محبت کر تا ہے۔ اس کے بعد زمین میں اس کی مقبولیت عام ہو جا تی ہے۔ (مﺅ طا امام مالک صد ۸۷۳)
دو نوکریان نہیں کر تے
جب حضور بابا تاج الدین صاحب ﺭﺿ قبلہ بر ٹش گورنمنٹ انڈیا کی فوجی ملا زمت کو تین سال ہو چکے تھے۔ دوران ناگپور کے قریب کامٹی ملٹری کیمپ میں (میگزین) اسلحہ کے ذخیرے پر پہرہ دینے کیلئے متعین تھے ! ایک رات دو بجے کے قریب ملٹری کا ایک کیپٹن اچانک معائنہ کیلئے آیا اور حضور بابا مرشدﺭﺿ کو اپنی ڈیو ٹی پر مستعدو مو جود پا یا۔ ضروری سوال و جواب و جائزے کے بعد نصف فرلانگ کے فاصلہ پر لب سڑک ایک چھوٹی سی مسجد کا صحن جو چاندنی رات سے پر نور تھا میں بڑے حضوﺭﺿ ر کو نماز میں مشغول پا یا۔ یہ کیپٹن چونکہ انگریز تھا کچھ دیر دیکھنے کے بعد پھر واپس (میگزین )اسلحہ کے ذخیرے پر پہنچا اور حضور با بﺭﺿ صاحب کو وہاں اپنی ڈیوٹی پر مو جود و مستعد پا یا۔ آپ نے فوراً آواز دی کہ کون !کیپٹن نے پوری تسلی کی اور واپس ہوا تو پھر اسی مسجد کے صحن میں بڑے حضوﺭﺿ ر کو مشغول عبادت دیکھا۔ قریب جا کر غور سے دیکھا اور پھر واپس میگزین پر آیا اور حضورﺭﺿ بابا مرشد کو بدستور اپنی ڈیوٹی پر مو جود پا یا اور پھر گفتگو کے بعد حیرت زدہ واپس ہوا تو پھر بڑے حضور ﺭﺿ صاحب کو مشغول عبادت پایا۔ غرض کہ تیسری بار وہ کیپٹن خاموشی سے واپس ہو گیا اور دوسرے روز اپنے بڑے آفیسر کے سامنے بڑے حضوﺭﺿ ر کو بلا یا گیا۔ اور رات کا سارا واقعہ دوہرانے کے بعد کہا کہ ہم نے تم کور ات میں دو دو جگہ پر دیکھا ہے۔ ہم سمجھتا ہے کہ تم خدا کا خاص بندہ ہے۔ اتنا سننا تھا کہ بڑے حضوﺭﺿ ر کو جلال آگیا، اور واپس ہو کر حضوﺭﺿ ر تمام سر کاری سا مان وردی وغیرہ لے آئے اور ہردو آفیسر ان کے سامنے رکھ کر اپنے مخصوص لہجہ میں فر ما یا۔ ?لو جی حضرت !اب دو دو نو کریاں نہیں کر تے جی حضرت ۔? صوبیدار نے کہا کہ آپ کی ترقی ہو نے والی ہے۔ ایسے میں ملاز مت سے سبکدوش ہو نا مناسب نہیں۔ آپ نے فر ما یا میری جو ترقی ہو نے والی ہے وہ تو مجھے مل گئی آپ کس ترقی کی بات کر تے ہیں؟آ پ نے وردی اتار کر رکھ دی اور فوجی احاطہ سے با ہر آگئے ۔ اس وقت آپ کے جسم پر ٹاٹ کا جبہ تھا۔ فوجی افسر نے سمجھا یہ پا گل ہو گئے ہیں۔ اس لئے اس نے سب کو خبر دی۔ آپ کے ما موں عبدالرحمن کے سسرُ ظہور بی اسی پلاٹون میں تھے۔ انہوں نے آپ کی نا نی کو فوراً کا مٹی میں اطلاع بھجوائی اور ممتا کی ماری نا نی فوراً دوڑی چلی آئیں۔
عالم جذب
نا نی نے ساگر میں آکر نواسہ کو جس حال میں دیکھاکہ بابا مرشد ﺭﺿ اپنے تن بدن کا ہوش بھلائے سا گر کے گلی کو چوں میں خاک چھان رہے تھے۔ انہیں نہ تو کپڑوں کا ہوش تھا اور نہ کھا نے کا خیال ۔ بس گھومے جا رہے تھے جیسے کسی چیز کی تلاش ہو کبھی جنگل کی طرف منہ اٹھ جا تا تو کبھی کسی پیڑ کے نیچے گھنٹوں مراقبہ میں بیٹھے رہتے۔ یہ حالت دیکھ کر آپ تڑپ گئیں۔ کسی طرح بابا مرشد کو اپنے ہمراہ کا مٹی لے آئیں۔ یہاں پہنچنے پر آپ کی نا نی صاحبہ ﺭﺿ اور ماموں صاحب نے ہر قسم کا علا ج کر وا یا۔ یہ لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ زیا دہ عبادت وریاضت سے دماغ میں گر می پیدا ہو گئی ہے یا پھر کسی چلہ وغیرہ میں کوئی غلطی ہو گئی ہے۔ جس کی وجہ سے دماغ میں خلل پیدا ہو گیا ہے۔چنانچہ کئی عاملوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ مقامی اعلیٰ سے اعلیٰ ڈاکٹر حکیم رجوع کئے گئے۔ لیکن عزیزوں کے حسب منشاءفائدہ نہ ہوا۔ سر کار تاج الا ولیاءﺭﺿ کا مسئلہ تو کچھ اور تھا یہ ۷۸۸۱ءکی بات ہے اب وہ معمولی انسان نہیں رہے تھے۔ جس پر دواﺅں یا دعاﺅں کا اثر ہو تا۔ اب بابا مرشدﺭﺿ پوری طرح مجذوب ہو چکے تھے۔ جنہیں دنیاسے کوئی سر و کار نہیں ہو تا۔ بس اللہ ہی اللہ ہو تا ہے اور اس کے عشق کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اس طرح بابا اکثر بھو کے پیا سے کبھی دھوپ میں کھڑے رہتے اور کبھی گلی کوچو ں میں گھومتے دکھا ئی دیتے ۔ اس رمز سے نا واقف اور بیوقوف لو گ انہیں پا گل کہنے لگے۔ کا مٹی میں بچوں کے گروہ بابا کے پیچھے جھنڈ بنا کر گھومتے اور پتھر مار تے تھے۔ راہ گیر جب بچوں کو اس فعل سے روکتے تو سر کار رُک کر ان حضرات سے مخاطب ہو کر فر ما تے ۔ان بچوں کو آپ کیوں روکتے ہیں۔ یہ پیارے پیارے معصوم بچے مجھ پر پھول بر ساتے ہیں۔ جن سے بڑی خوشبو آتی ہے۔ نا نی صاحبہ ﺭﺿ پر اس کیفیت کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ وہ اس دارفانی سے کوچ کر گئیں۔ نا نی صاحبہ ﺭﺿ کے انتقال کے بعد یہ ذمہ داری ما موں صاحب ﺭﺿ نے سنبھالی لیکن حضور بابا مرشد ﺭﺿ کا تو وہی حال تھا۔ وہ محکمہ جنگلات میں ملازم تھے اور چاندا میں تعینات تھے۔ وہ کامٹی آکر بابا مرشدﺭﺿ کو اپنے ساتھ چاند الے گئے وہاں جنگلی قبائل اور جا دو ٹونا کر نے والے بڑی تعداد میں رہتے تھے۔ ان کے ما موںنے ان لو گوں سے بھی علا ج کر ا یا۔ مگر سب بے سود رہا۔ بابا مرشدﺭﺿ کا مرض تولا علاج تھا۔ بھلا ان کا علاج کون کر سکتا تھا۔ سچے عاشق کے دردنہال کا علاج تو محبوب کا دیدار ہوا کر تا ہے۔ بابا مرشدﺭﺿ چاندا کے گھنے جنگلوں میں گھومتے رہتے ۔ اس دور میں آپ کو جنگل میں شیر کی سواری پر بھی لو گوں نے دیکھا ۔ چنانچہ آپ کی شہرت شیر تاج الدین ﺭﺿ کے نام سے بھی ہوئی ! کبھی چاندا کے قدیم قلعہ کے کھنڈروں میں یا کسی برج کے نیچے مراقبہ میں بیٹھ جا تے۔ انہیں نہ کھا نے کا ہوش تھا اورنہ کپڑوں کی ضرورت۔ جاڑاگر می یا بر سات ان پر کوئی اثر نہیں کر تے تھے۔ ہار کر ما موں صاحب پھر انہیں کا مٹی میں چھوڑ گئے۔ اب کا مٹی میں کوئی بھی ان کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں تھا۔ اس لئے بابا مرشدﺭﺿ سڑکوں پر آزاد گھومتے تھے۔ کبھی کسی پل کے نیچے اور کبھی کسی کھنڈر میں پڑے رہتے ۔ کئی کئی دن تک کھا نا نہیں کھا تے تھے۔ اگر کسی نے کھا نے کیلئے کچھ دے دیا تو کتوں کو کھلا دیتے تھے۔ تن پر کوئی کپڑا نہ ہو تا۔ بالکل بر ہنہ رہتے۔ آپ بستی کے ٹمپل گارڈن میں بھی دو دو دن قیام فر ما تے ۔ گارڈن میں قیام کے دوران آپ کے دست مبارک میں اکثر مٹی کا کونڈا (مٹی کا بر تن) بھی دیکھا گیا ہے۔ اسی زمانہ میں آپ مسٹر ترونگرٹکپونڈر کنٹو اسپتال کے مکاں پر بھی تشریف لیجا تے تھے۔ ان کی بیوی کو آپ مامی کہکر مخاطب فر ما تے تھے۔جس دور میں حضرت بابا ﺭﺿ شیر سوار یا شیر تا ج الدین ﺭﺿ کے نام سے مشہور ہوئے۔ کامٹی کے نئے با زار کے ایک کمرہ میں کبھی کبھی تشریف لا کر مجاہدہ فر ما تے تھے۔یہاں آپ نو کدار پتھروں کو جمع کر کے اس پر آرام فر ما تے۔اس طرح تز کیہ نفس کر تے مجا ہدات کا یہ سلسلہ عرصہ ڈیڑھ سال رہا۔ اس دوران میں زیادہ وقت آپ نے جنگلوں ہی میں گزار ا۔ اس کے بعد چند ماہ پھر کامٹی میں رہے مگر یہاں بھی کسی ایک مقام پر قیام نہیں فر ما یا۔ البتہ ایک مدراسی صاحب کے مکان پر شام میں روزانہ تشریف لائے ۔ یہ صاحب لا ولد تھے جب سر کار ان کے گھر آئے تو وہ بہت عاجزی سے سر کار کو کھا نا پیش کر تے تھے۔ سر کار کو آنے میں اگر دیر ہوتی تو با ہر بیٹھ کر سر کار کا انتظار کر تے۔ ایک روز سر کار حسب معمول تشریف لائے۔ مدرا سی صاحب نے کھا نا پیش کیا سر کار نے ارشاد فر ما یا؛ ?گر تا ہے تو گر تا ج الدین تو ہے? حضور ﺭﺿ کے اس جملہ کو مد راسی صاحب نے سنا لیکن کچھ خیال نہیں کیا۔ اصل میں وہ بھی بابا صا حب ﺭﺿ کے بارے میں یہی سمجھتے تھے کہ ان کے دما غ میں کچھ خلل ہے۔ بابا مرشد ﺭﺿ کے روانہ ہو نے کے کچھ دیر بعد ہی مدرا سی صاحب کامکان گر گیا۔ لیکن مدرا سی صاحب اور ان کی بیوی کو ذراسی بھی چوٹ نہیں لگی۔ تب ان صاحب کو حضرت بابا مرشد ﺭﺿ کے وہ جملے یا د آئے گر تا ہے تو گر تاج الدینﺭﺿ تو ہے۔ (یعنی مکینوں کی حفاظت میں کروںگا) اس روز کے بعد مدراسی صاحب ﺭﺿ نے سمجھ لیا کہ یہ اللہ کے ولی ہیں۔ وہ سر کار کی بے حد عزت کر نے لگے۔ ایک روز سر کار بابا مرشد ﺭﺿ کو خوش دیکھکر آپ سے عرض کیا ۔ میں لا ولد ہوں۔ آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ مدراسی صاحب نے مکرر سکرر عرض کیا ۔ تب حضور ﺭﺿ نے فر ما یا ? تجھ کو تاج الدین ﺭﺿ نے تین اولاد دیا۔اس میں ایک پنڈت ہو گا ? چنانچہ مدراسی صاحب کے ہاں یکے بعد دیگر ے تین لڑ کے پیدا ہوئے ان میں سے ایک پنڈت بھی ہوئے۔ اس طرح حضرت بابا مرشد ﺭﺿ سے کرا مات کا ظہور ہو نے لگا۔ جس سے آپ کے گرد مخلوق کا بے حد اجتماع رہتا ۔ جس کی وجہ سے آپ کے معمولات میں فرق آنے لگا۔ اس لئے آپ نے ریا ضت کیلئے ایک انگریز کا باغ منتخب کیا تا کہ اس انگریز کی وجہ سے لوگ باغ میں نہ آسکیں۔ انگریز وں کی حکومت تھی ، عا م لوگ انگریزوں سے بیت ڈرتے تھے ۔ لیکن یہاں بھی لوگ اس انگریز کے پاس پہنچے جو اسی باغ میںرہتا تھا۔ اور اس سے درخواست کی کہ ہمیں بابا مرشدﺭﺿ سے ملنے کی اجا زت دی جائے۔ اسلئے کہ یہ اللہ کے ولی ہیں۔ ہم لوگ اپنی مرادوں کیلئے ان سے عرض کر تے ہیں اور وہ اللہ سے عرض کر دیتے ہیں ہماری مرادیں پوری ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ انگریز نے اجا زت دے دی۔ پھر سر کار کی خد مت میںہجوم رہنے لگا۔ چنانچہ آپ نے ایسی تر کیب نکالی کہ اس انگریز نے خود ہی تانگہ میں بٹھا کر آپ کو ناگپو روانہ کر دیا۔
پاگل جھونپٹری
یہاں بھی جب لوگ بہت زیا دہ تنگ کر نے لگے کہ یہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ رات دن ایک ہوگیا۔ ایک روز بابا تاج الدین ﺭﺿ نے فر ما یا ۔ ?لوگ ہمیں بہت ستا تے ہیں۔ اب ہم پا گل جھونپڑی چلے جائیںگے۔? دوسر ے ہی دن بابا لیڈیز کلب جا پہنچے جہاں کچھ یورپین عورتیں ٹینس کھیل رہی تھی۔ حضور با بﺭﺿ بالکل بر ہنہ ان عورتوں کے بیچ جا کھڑے ہو ئے۔ انگریز عورتوں میںکہرام مچ گیا اور انہوں نے پولیس کو بلا کر بابا مرشدﺭﺿ کو اس کے حوالے کر دیا اور آپ کو کنٹومنٹ مجسٹریٹ اور ضلع مجسٹریٹ کے حکم سے ٢٦ اگست ۳۹۸۱ءکو پا گل خانہ میں داخل کر دیا گیا۔ آپ کی دلی مراد پوری ہوئی ۔ آپ پولیس کی مار کھا کر ہنستے رہے اور فر ما نے لگے ?ہو جی،ہم پا گل جھونپڑی جائیںگے۔? اس طرح ایک ولی پا گل بن کر پا گل خانہ میںپہنچ گیا۔ اس وقت آپ کی عمر ۱۳ سال تھی۔ اس طرح یہ واقعہ ۲۹۸۱ءمیں پیش آیا۔ پا گل خانہ کے رجسٹر میں آپ کی عمر ۱۳ سال پا نچ مہینے۷ دن درج ہے۔ وہ تاریخ ۷۲ اگست ۲۹۸۱ءاور دن جمعرات تھا۔ حالت جذب بھی ایک طرح کا پا گل پن ہے۔ دنیا والے ولیوں کو ہمیشہ پا گل ہی کہتے آئے ہیں۔ حالانکہ وہ اللہ کے عشق میں اپنے آپ سے بھی غافل ہو جا تے ہیں۔ پا گل خانہ میں آپ کو تنہائی میسر تھی اور آپ زیا دہ ترعبادت میں مصروف رہتے تھے۔ اس طرح سولہ سال آپ نے پا گل خانہ میں کاٹ دیئے۔ ان سولہ سال کے دوران عجیب و غریب وا قعات رو نما ہوئے۔ ۷۲ اگست ۲۹۸۱ءکو آپ پا گل خانہ میں داخل ہوئے تھے۔ لیکن اسی دن آپ کا مٹی میںگھومتے ہو ئے دیکھے گئے۔ جبکہ نا گپور سے کا مٹی کا فی دور ہے۔ پاگل خانہ کے انگریز افسر کا اردلی با زار سے سو دا خرید نے آیا تھا۔ اس نے بابا مرشد کو حیرت سے دیکھا اور واپس لو ٹ کر افسر کو خبر دی ۔ یہ وہی فوجی افسر تھا جو مجسٹریٹ کے حکم سے بابا کو پا گل خانے پہنچا کر آیا تھا۔ خبر ملتے ہی انگریز افسر غصہ سے پا گل ہوا ٹھا اور فوراً گھوڑے پر سوار ہو کر با زار پہنچا جہاں بابا مرشد ﺭﺿ ایک درخت کے نیچے دھو نی جمائے بیٹھے تھے۔ افسر غصہ سے پا گل ہوا ٹھا اور گھوڑا دوڑا کر نا گپور پہنچا اور جا تے ہی ڈاکٹر پر گرم ہو کر دریافت کیا ۔ ? میں جو پاگل کل پہونچا گیا تھا کہا ں ہے ؟ ? ڈاکٹر سٹپٹا گیا اور کہا کہ وہ اپنی کو ٹھری میں بند ہے۔ دونوں جلدی جلدی اس کو ٹھری پر پہنچے جہاں بابا بند تھے۔ افسر نے حیرت سے دیکھا کہ بابا ٹھیک اسی حالت میں کو ٹھری میں بیٹھے تھے۔ جس حالت میں اس نے انہیں درخت کے نیچے بیٹھے کا مٹی میں دیکھا تھا۔ افسر کے دل میں بابا حضورﺭﺿ سے بے پناہ عقیدت پیدا ہوئی اور وہ ہر ا توار کو بابا کے دیدار کیلئے معہ بال بچو ں کے آنے لگا۔ ادھر بابا کا کامٹی میں دید ار عام بات ہو گئی ۔ کبھی کسی عقیدت مند کے در وازہ پر کھڑے نظر آتے اور کبھی کسی پیٹر کے نیچے دھو نی رمائے بیٹھے ہو تے۔ پاگل خانہ کے انچارج ڈاکٹر عبدالمجید خاں تھے۔ ایک رات انہوں نے بابا کو پا گل خانہ میں ٹہلتے ہوئے پا یا تو چو کیدار پر بہت خفا ہوئے کہ تم نے کو ٹھری کو بند کیوں نہیں کیا۔ چوکیدار نے ڈاکٹر صاحب کو لے جا کر دکھا دیا۔کو ٹھری کا تا لہ لگا تھا اور بابا اس میں بند تھے۔ ڈاکٹر صاحب حیران ہو کر کبھی تا لہ دیکھتے اور کبھی بابا مرشد کو ۔اتنے میں اندر سے بابا مرشد بو لے۔ ?کیا دیکھتا ہے؟ ہوا تو ہے آتی ہے اور جا تی بھی ہے۔? ڈاکٹر صاحب قائل ہو گئے اور ان کے دل میں بھی بے پناہ عقیدت پیدا ہو گئی اور وہ بھی بابا مرشد کی خد مت میں حاضر ہونے لگے۔ پا گل خانے کے قیام کے زمانے میں بابا تا ج الدینﺭﺿ پر جذب و استغراق کا غلبہ کم ہو گیا۔ اور آپ اکثر شعوری حالت میں رہنے لگے۔ شعوری حالت میں بھی ان سے اس تو ا تر اور تسلسل سے کرا مات کا ظہور ہو تا تھا کہ گو یا وہ ان کے نز دیک خرق عادت نہیں بلکہ معمول ہے۔ ایک شام مقرر ہ وقت پر بابا تاج الدین ﺭﺿ کو ان کے کمرے میں پہنچا کر کمرہ مقفل کر دیا گیا۔ اور پا گل خانے کا صد ر دروازہ بھی بند کر دیا گیا۔ اگلی صبح محافظ نے صدردروازہ کھولا تو تاج الدین ﺭﺿ با ہر سے اندر آنے کے منتظر کھڑے تھے۔ محافظ بابا مرشد ﺭﺿ کو با ہر دیکھ کر ان کے کمرے کے پاس پہنچے۔ کمرے کا دروازہ ہنوز مقفل تھا۔ وہ لوگ پہلے ہی سمجھ چکے تھے۔ کہ بابا تاج الدین ﺭﺿ ایک عام آدمی نہ تھے۔ اس لئے انہوں نے اس وقت کچھ نہیں کہا۔ لیکن ان کی عقیدت میں مزید اضا فہ ہو گیا۔
پاگل فرار ہو گیا
پا گل خانہ میں جن دنوں آپ کا قیام تھا اسی دوران ایک پا گل فرار ہو گیا ۔ شام کو جب حاضر ی لی گئی تو وہ پاگل مو جود نہ تھا ۔ جب اس کی اطلاع ڈاکٹر عبدالمجید صاحب کو ہوئی تو وہ بے حد پریشان ہوئے اس لئے کہ وہ پا گل کسی بڑے آفیسر کے ذریعہ داخل کر ایا گیا تھا۔ اس کی تلاش کے سلسلہ میں ٹہلتے ہوئے سوچ رہے تھے۔کہ کیا تد بیر کی جائے۔ اتنے میں حضور بابا مرشد ﺭﺿ ڈاکٹر صاحب کے پاس خود تشریف لائے اور فرمایا۔ کیوں گھبراتا ہے ، صبح آ جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب عقیدت مند تو تھے ہی بے فکر ہو گئے۔ د وسرے دن صبح فرار شدہ پاگل ، پاگل خانے کے دروازے کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا، جسے پاگل خانے کے ملازمین دیکھ کر اندر لے آئے ۔ اور ڈاکٹرصاحب کو اطلاع دی ۔ وہ فوراً آگئے اور اس پا گل سے در یا فت کیا کہ تو کس طرح بھا گا اور واپس کس طرح آگیا۔ پا گل نے بالکل با ہوش لو گوں کی طرح جواب دیا۔ میں اپنے گھر جا رہا تھا۔ لیکن بھائی تاج الدین ﺭﺿ مجھے راستے میں مل گئے۔ انہوں نے مار مار کر مجھے پا گل خانہ کے دروازہ پر لا کھڑا کیا۔ اور خود اندر چلے گئے ہیں۔ ان کا انتظار کر رہا تھا۔ کہ آپ کے سپاہی پکڑ کر اندر لے آئے۔ڈاکٹر صاحب اور تمام عملے کے لوگ آپ کی اس کرا مات سے بے حد متاثر ہوئے ۔ جب آپ نے اپنے مجا ہدات مکمل کر لئے تو پھر مخلوق خدا پا گل خانہ میں پہنچنے لگی۔ جو حاضر ہو تا ۔اپنی مراد لیکر واپس لوٹتا۔ اس شہرت کی وجہ سے گورنمنٹ نے آپ کے دیدار کو آنیوالے حضرات کے لئے فیس مقرر کر دی ۔ شروع میں فیس دو آنہ مقرر کی لیکن لو گوں کا اژ دھام کم نہ ہوا چنانچہ فیس بڑھا تے بڑھاتے ایک روپیہ کر دی گئی۔ لیکن پبلک اس و جودکے ٹوٹی پڑ رہی تھی۔ حضور کی کرا مات کا چر چا ہندوستان کے مختلف مقا مات تک پہنچ چکا تھا۔ اور دور دور سے لوگ آکر سر کار سے فیض پا نے لگے۔ اس میں ہندو، مسلم،سکھ ،پارسی، غرض کہ ہر قوم کے لوگ شامل ہو تے۔ یہاں تک کہ انگریز عہدیدار بھی حضورﺭﺿ کی خد مت میں حاضری دینے لگے۔ ان میں سرانتھونی میکڈونلڈ چیف کمشنر کر نل روسول سر جن اور کئی انگریز افسران ،اور شہر کے معززین ،دیگر قوم کے افسران اور مسلم افسران جن میں مو تی صاحب سپر نٹنڈنٹ پولیس خان بہادر حافظ ولا یت اللہ خان صاحب اس سپر نٹنڈنٹ پولیس خان،بہادر ، حافظ ولا یت اللہ خان صاحب اسسٹنٹ کمشنر ان کے علا وہ مہاراجہ بہادر (رگھوجی راﺅ بھونسلے بھی حضورﺭﺿ کے دیدار کے لئے حاضر ہو نے لگے۔
راجہ رگھوجی راﺅ بھونسلے
مہاراجہ کی مختصر خاندانی تفصیل بھی بیان کرتا چلوں ۔ اس لئے کہ مہاراجہ بہادر پر سرکار تاج الاولیاءﺭﺿ نے بے حد کرم فرمایا اور مہاراجہ نے سرکار کی بے حد خدمت کی ۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بھی مہاراجہ کے محل میں سرکار کا چلہ شریف ہے اور سرکار کا پلنگ مبارک اور دیگر تبرکات موجود ہیں۔ جو اسی سلیقہ سے رکھے ہوئے ہیں۔ جن کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ سرکار ابھی ابھی اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے ہیں۔ اور لاکھوں بندگان خدا کو یہاں سے بھی وہی فیض پہنچ رہا ہے کیوں نہ ہو سرکار نے خود فرمایا تھا کہ میرا بستر تیرے گھر قیامت تک رہے گا۔ جن پر سرکار کا خصوصی کرم ہوتا ہے ان کو سرکار کی زیارت بھی ہو جاتی ہے۔ مہاراجہ جا نوجی راﺅ بہادر جو مشرقی ممالک متوسط کے خود مختار راجہ تھے۔ جن کا راج شرقاً ،غرباً وردھاندی سے مہاندی بنگال تک اور جنوباً و شمالاً گوداوری ندی کے قرب و جوار سے نربدا ندی تک پھیلا ہوا تھا۔ ان کا شمار بڑی طاقت کے راجاﺅں میں ہوتا تھا۔ گورنمنٹ برطانیہ سے اٹھارہ ہزار پولیٹکل پنشن ملتی تھی۔ راجہ رگھوجی راﺅ بھونسلے چونکہ ان کے ولیعہد تھے ۔ اس لئے جانوجی راﺅ کے انتقال کے بعد پولٹیکل پنشن کے قاعدے کے مطابق راجہ رگھوجی راﺅ کو پانچ ہزار اور ان کے بھائی راجہ لچھمن راﺅ صاحب کو ایک ہزار پنشن ملنے لگی۔ اس کے علاوہ خالصہ اور مکاسہ گاﺅں بھی تھے۔ جن کی سالانہ آمدنی ڈھائی تین لاکھ روپیہ تھی۔ لیکن بابا مرشدﺭﺿ کی خدمت میں پہنچنے کے بعد سرکار کے سب سے چہتے غلاموں میں آپ کا شمار ہونے لگا۔
راجہ رگھوجی راﺅ کی حاضری
راجہ رگھوجی راﺅ کے لڑکے ونایک راﺅ کی بیوی حاملہ تھی اور اس کو دردزہ شروع ہوااور وہ بہت بے چین ہوئی ، چنانچہ اسی تکلیف میں سارا دن گذر گیا ، شہر ناگپور کے مشہور و معروف سرجن اور لیڈی ڈاکٹر جمع تھے لیکن بچہ پیدا نہیں ہو رہا تھا، لاکھ جتن کئے گئے لیکن ہر کوشش ناکامیاب رہی اور ویانک راﺅ کی بیوی یعنی چھوٹی رانی بالکل بیہوش ہو چکی تھی، سارا دن گزر چکا تھا، غرضیکہ شام کے بعد تمام ڈاکٹروں اور لیڈی ڈاکٹروں نے حالات کو دیکھتے ہوئے یکجائی معائنہ کیا اور یہ فیصلہ دیا کہ بچہ پیٹ میں مرچکا ہے اور بچے کو پیٹ سے کاٹ کر نکالا جاسکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں بچے کی ماں کی بھی خیر نہیں یہ بھی مر جائے گی۔ بچے کو کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے باہر نکالا جائے اس پر راجہ رگھوجی راﺅ اور بڑی رانی یعنی رگھوجی راﺅ کی بیوی رضا مند نہیں ہوئے اور انھوں نے یہ کہہ دیا کہ اگر چھوٹی رانی خود مرتی ہے تو مرجانے دو ہم لوگ اپنی طرف سے (آتما ہتھیا) کی اجازت نہیں دیں گے۔ رات پوری اسی عالم میں گزر گئی ۔ صبح کو چھ بچے جب راجہ رگھوجی راﺅ اپنی پوجا پاٹ سے فارغ ہوا ہی تھا کہ راجہ صاحب کاموٹر ڈرائیور جو ایک مسلمان تھا اور حضوربابا مرشد ﺭﺿ بڑا معتقد تھا راجہ صاحب کے پاس آیا اور عرض کیا کہ حضور ان داتا اب تو اگر چھوٹی رانی کی جان بچانی ہے تو میری ایک عرض قبول کریں اور میرے ساتھ پاگل خانہ چلیں وہاں پر ایک بڑے ولی اللہ ہیں اور ان کا نام حضور بابا تاج الدین ﺭﺿ صاحب ہے اور سارے شہرکے اور باہر کے لوگ بھی حضور بابا مرشد سے بڑے فیض اٹھا رہے ہیں۔ بس اب تو آپ میری عرض سن لیجئے اور میرے کہنے سے حضور بابا مرشد کی خدمت میں چلئے۔ چنانچہ قدرت ہی کو یہ منظور تھا، راجہ رگھوجی راﺅ کی قسمت اچھی تھی وہ کچھ ایسا متاثر ہواکہ پوجا کا وہ کپڑا جس کو یہ لوگ پوجا کے قوت پہنتے ہیں اور جو ان کی اصطلاح میں پتامبر کہلاتا ہے وہی پہنے ہوئے ننگے پیر فوراًموٹر میں آکر بیٹھ گیا اور ڈرائیور موٹر کو ہوامیں اڑاتا ہوا صدر اور چھاﺅنی سے آگے سیدھا پاگل خانہ کے صدر دروازے پر رکا جہاں پاگل خانہ کا سپرنٹنڈنٹ اور دوسرے لوگ راجہ صاحب کے آنے کی خبر سن کر دوڑے آئے، لیکن ڈرائیور راجہ صاحب کو موٹر ہی میں چھوڑ کر اندر پاگل خانہ میں حضور بابا مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور بابا مرشد ﺭﺿ س وقت اپنے مخصوص کمرے کے باہر پائیں باغ میں ایک شانِ بے نیازی سے بیٹھے ہوئے تھے اور بالکل عالمِ سلوک میں تھے۔ ڈرائیور نے حضورﺭﺿ کے قدم چوم لئے اور دست بستہ عرض کیا حضرت جی، حضورﺭﺿ کی خدمت میں شکردرا سے راجہ رگھوجی راﺅ آئے ہیں اور قدمبوسی کے لئے حاضر ہونا چاہتے ہیں ۔ یہ سن کر حضور بابا مرشد ﺭﺿ ﺭﺿ نے سر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا ? ہم فقیر جی حضرت ہمارے سے راجہ کا کیا کام جی حضرت۔? ڈرائیور نے پھر حضور ﺭﺿ کے قدم پکڑ لئے اور عرض کیا حضور قدمبوسی کی اجازت دیجئے بڑا کرم ہوگا، اس پر حضورﺭﺿ خاموش رہے۔ اور ڈرائیور بھاگا بھاگا راجہ کے پاس گیا اور کہا کہ بس جلدی چلو اور چل کر فوراً حضور بابا مرشد ﺭﺿ کے قدم پکڑ لو،راجہ فوراً موٹر سے باہرآیا اور اندر جا کر حضور بابا مرشد ﺭﺿ کے قدم پکرلئے، حضور نے ایک نظر دیکھا اور فرمایا :۔ ?ادھر کیا کرتے جی حضرت ، ادھر جانا لڑکا پیدا ہوا تو خوشیاں منانا?۔ حضور بابا مرشد ﺭﺿ کا مخصوص لہجہ یہی تھا۔ موٹر ڈرائیور حضور بابا مرشد ﺭﺿ کا سچا عاشق اور بڑا گرویدہ تھا، فوراً ہی راجہ صاحب سے بولا کہ بس ان داتا چلو کام ہو گیا ساتھ ہی ڈرائیور نے جیب میں سے گھڑی نکالی اور جس وقت حضور بابا مرشد کی زبانِ مبارک سے مندرجہ بالا جملے ادا ہوئے تھے وہ وقت منٹ، سیکنڈ اور گھنٹے کے حساب سے نوٹ کر لئے اور وہاں سے راجہ کو لیکر شکر دراروا نہ ہو گیا۔ محل کے دروازے پر پہنچنے سے کچھ دورہی سے ڈھول اور نفیری ، شہنائیاں ، باجے وغیرہ کی آوازیں آنے لگیں ۔ قریب پہنچ کر دیکھا تو سارے لوگ خو ش و خرم بھاگے دوڑے پھر رہے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کو خوشخبریاں دے رہے ہیں ۔ موٹر کے رکتے ہی سارے لوگ بھاگے ہوئے راجہ کے پاس آئے اور ہنستے ہوئے ہر ایک نے کنور صاحب کے پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی۔ راجہ خاموشی کے عالم میں بے خود اپنے آپ کو بھول گیا۔ غرضیکہ بڑی رانی اور راج کماریاں غرضیکہ سارا محل ہی امڈ آیا اور خوب دان پن ہوا لیکن ڈرائیور نے فوراً ہی راجہ صاحب سے عرض کیا کہ ان داتا سرکار اندر جو پنڈت اور مہاتما لوگ ہیں اور جو کنور صاحب کے پیدا ہونے کی جنم پتری اور جنم کنڈلی بنائیں گے ان سے اور اندر نوکرانیوں اور ڈاکٹرانیوں سے صحیح وقت مجھے معلوم کر ا دیجئے۔ چنانچہ پوری جانچ پڑتال سے یہ بالکل صحیح ثابت ہوا کہ جس وقت حضور بابا ﺭﺿ کی زبان سے وہ جملہ نکلا تھا کہ ادھر کیا کرتے جی حضرت ادھر جانا لڑکا پیدا ہوا تو خوشیاں منانا، اسی وقت لڑکا تولد ہوا ہے اور جس پر سارے ڈاکٹر ، ڈاکٹرنیاں اور دوسرے لوگ انگشت بدنداں ہیں۔
پاگل جھونپڑی سے شکردرہ محل
حضور کے فیض سے وہ تمام حضرات تو مستفیض ہو ہی رہے تھے ۔ جو فیس ادا کرکے سرکار کی خدمت میں پہنچ جاتے تھے۔ لیکن ایسے بھی ہزاروں افراد تھے جو فیس ادا نہیں کر سکتے تھے وہ محروم تھے چنانچہ پبلک کی طرف سے ایک درخواست پیش کی گئی کہ سرکار بابا مرشدﺭﺿ پاگل نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ ولی اللہ ہیں۔ جن کے فیض سے بے شمار مخلوق فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے محروم ہے۔ اس درخواست پر پاگل خانہ کے عہدیداروں نے تصدیق کی درخواست پر کمشنر نے حکم دیا کہ قانونی طور پر کوئی شخص ضمانت داخل کر کے سرکار کو لے جائے ، چنانچہ راجہ رگھوجی راﺅ صاحب کو جیسے ہی علم ہوا آپ نے دو ہزار روپیہ کی نقد ضمانت پیش کر کے سرکار کوسولہ سال بعد ۱۲ ستمبر ۸۰۹۱ءکو پاگل خانہ سے اپنے محل شکردرہ لے آئے۔ اس کی تصدیق پمپل کر صاحب نائب مہتمم پاگل خانہ ناگپور نے کی ۔ جس وقت آپ پاگل خانہ سے باہر نکلنے لگے تو فرمایا۔ یہ جگہ خالی نہیںرہیگی ۔ چنانچہ اس وقت سے آج تک اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ایک نہ ایک عارضی طور پر پاگل خانے میں موجود ہوتے ہیں۔ غرض کہ جب حضور بابا مرشد کو راجہ رگھوجی راﺅ اپنے محل شکردرہ لے جا رہا تھا وہ منظر بھی عجیب و غریب اور دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا اور اس قدر عوام کا ہجوم کہ جس میں ہندو، مسلمان ، اہل ِ تشیع عیسائی ، سکھ اور ہر فرقہ کے لوگ برابر کے شریک تھے۔ یہ سب لوگ ایک جلوس کی شکل میں تھے اور راجہ رگھوجی راﺅ ہاتھی پر قبلہ حضور بابا تاج الدین صاحب کو لئے ہوئے بیٹھا تھا، اور آگے اور پیچھے گھوڑوں اور اونٹوں کی قطاریں جن پر زرق برق پوشاکیں پہنے ہوئے راجہ کے نوکر سوار اور شاہی بینڈ آگے آگے اور پاگل خانہ سے چھاﺅنی اور چھاﺅنی سے صدر بازار تک ایک ہجوم بابا کی زیارت کے لئے ساتھ ساتھ تھا ہر طرف آدمی ہی آدمی نظر آتا تھا۔ پھولوں کی ہر طرف اس قدر بارش تھی کہ بس بیان سے باہر تھی اور یہ سارا سماں دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا غرض کہ اسی شان و شوکت سے وہ شہنشاہ ولایت جو ایک فقیر کے بھیس میں تھے شکردرہ پہنچے ، راجہ رگھوجی راﺅ کی رانیاں اور دیگر عورتوں نے اور راجہ کے خاندان کے کئی سو آدمیوں نے آگے بڑھ کر راجہ رگھوجی راﺅکی موجودگی میں بابا مرشد ﺭﺿ کی قدمبوسی کا شرف حاصل کیا۔ یہ میری خوش قسمتی تھی یہ خادم راقم الحروف اس جلوس میں شریک تھا اور پاگل خانہ سے شکردرہ تک جلوس کے ہمراہ پیدل سفر کیا اور سارا منظر آنکھ سے دیکھا۔ اس کے بعد بابا مرشد شکردرہ میں مستقل طور سے رہنے لگے اور راجہ رگھوجی راﺅ ہمیشہ حضور ﺭﺿ کے درشن کرنے کو آتا رہتا تھا، حضور ﺭﺿ کو رہائش کے لئے راجہ اپنے محل کا بالکل سامنے والا بڑا حصہ مخصوص کر دیا ہوا تھا اور حضور بابا مرشد ﺭﺿ سے فیض عام جاری تھا اکثر ایسا ہوتا کہ حضور ﺭﺿ بیٹھے ہوئے ہوتے اور اپنے مخصوص لہجہ میں کوئی ذکرفرماتے یا کسی کا نام لیتے اور اس کے متعلق فرماتے اور کچھ دیر کے بعد وہ شخص حاضر ہوتا اور بالکل وہی باتیں حضورﺭﺿ سے کرنے لگتا جو ایک گھنٹہ یا دو گھنٹہ پہلے حضورﺭﺿ نے کہہ دیا ہوتا۔ حضرت مولانا محمد عبد الاحد صاحب بھوپالی کی ڈیوٹی یہ ہوتی تھی کہ میں جب بھی خدمت میں حاضر رہا حضور بابا مرشد ﺭﺿ بیڑی ہمیشہ میرے ہاتھ سے پیتے تھے اس لئے میں بیڑی اور ماچس ہمیشہ اپنے ہاتھ ہی میں رکھا کرتا تھا جہاں حضورﺭﺿ نے فرمایا (بیڑی ) میں فوراًہی بیڑی حضور ﺭﺿ کے منہ سے لگا دیا کرتا تھا۔ اور اگر حضورﺭﺿ نے بیڑی طلب کی اور کسی نے بیڑی جیب سے نکال کر پیش کی تو پھر حضور بابا مرشد ﺭﺿ بیڑی نہیں پیتے تھے ۔ کھانے کا آپ کے یہ عالم تھا کہ کھانے کے لئے راجہ رگھوجی راﺅ کا خاص انتظام تھا، اس طرح کہ راجہ کا ایک ملازم دو بڑے بڑے ناشتہ دان بھرے ہوئے ہر وقت حضور بابا مرشد ﺭﺿ کے عقب میں موجود رہتا تھا اور پانی کی چھاگل ہمیشہ ملازم کے کاندھے پر ہوتی تھی ہر چھ گھنٹے کے بعد کھانا تبدیل کر دیا جاتا تھا اور تازہ کھانا آجایا کرتا تھا۔ حضور بابا مرشد کﺭﺿ جب جی چاہا دو تین لقمہ کھالئے ورنہ اکثر دو دو اور تین تین دن تک کھانا نہیں کھاتے تھے۔ پانی آپ کبھی پیتے اور کبھی نہیں پیتے تھے۔ بابا مرشد ایک ماہ تک شکر درا میں رہ کر مہاراجہ کی اجازت سے واکی کے جنگلوں میں چلے گئے۔
قیام واکی شریف
واکی کے پٹیل شری کاشی ناتھ راﺅ بابا مرشد ﺭﺿ کے بھگت تھے ۔ انھیں جوڑوں میں درد کی شکایت تھی ۔ جس کے علاج کے لئے وہ اکثر ناگپور آیا کرتے تھے ۔ ایک دن پاگل خانہ کے سامنے سے گزر رہے تھے کہ ایک جم غفیر دیکھ کر رک گئے ۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ پیڑ ایک سنت کے درشن کے لئے جمع ہے۔ کاشی ناتھ نے بابا مرشد ﺭﺿ کو دیکھ کر سر جھکا دیا۔ بابا مرشد ﺭﺿ نے فرمایا ? نانا آپ ٹھیک ہو جاتے ۔ ہم تمہارے گھر آئیں گے ۔ ? کاشی ناتھ راﺅ کے جوڑوں کا درد جاتا رہا اور کاشی ناتھ مستقل بابا مرشدﺭﺿ کی خدمت میں حاضر ہونے والوں میں شامل ہوگئے۔ ایک دن بابا مرشد ﺭﺿ مہاراجہ کی بگھی میں سوار چلے جار رہے تھے۔ پاٹھن ساونگی پہنچ کر بابا مرشدﺭﺿ نے فرمایا ? نانا کو بلائیں ہم واکی جائیں گے ۔ ?فوراً واکی خبر بھیجی گئی جو پاٹھن ساونگی سے شمال کی جانب صرف چار میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ کاشی ناتھ راﺅ پٹیل فوراً چار بیل گاڑیاںلے کر آپہنچے اور شاندار استقبال کر کے بابا کو واکی لے گئے ۔ ا س طرح بابا مرشد ﺭﺿ وا کی پہنچ گئے۔ کاشی ناتھ راﺅ پٹیل نے بابا کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ کئی خدمت گار مقرر کر دیئے اور خود بھی خدمت میں حاضر رہتے تھے مگر بابا مرشدﺭﺿ نے کبھی بستر پر آرام نہیں کیا۔ جب بیٹھے زمین پر ، جب لیٹے تو بھی زمین پر ۔ جاڑا گرمی برسات ہر موسم میں ایک کرتے کے سوائے کچھ نہ پہنتے تھے۔ سر اور پاﺅں ہمیشہ ننگے رہتے تھے۔ جس طرح پاگل خانہ میں آپ نے ہزاروں کرامات دکھائیں اور ہزاروں لوگوں کو فیض پہنچایا ، یہاں واکی میں بھی آ پ کی کرامت اور فیوض کا سلسلہ جاری رہا۔
تعلیمی اور رفاہی مراکز
واکی شریف میں قیام کے دوران مسجد، مدرسہ ، شفاخانہ اور عدالت کا قیام بابا مرشد ﺭﺿ نے پٹیل کے کھیت میں ایک بڑے املی کے درخت کے نیچے کیا اور اکثر وہیں ریاضت میں مصروف رہتے ۔ وہاں عقیدت مند آتے اور بابا سے فیض حاصل کرتے تھے۔ پٹیل نے وہیں ایک ڈیرا بابا مرشد ﺭﺿ کے لئے بنوایا تھا ۔ حضور بابا مرشد ﺭﺿ نے اس مقام کو چھوڑ کر ناگپور کا نام دیا تھا۔ رفتہ رفتہ وہاں آکر رہنے والوں کی تعداد بڑھ گئی اور اچھی خاصی بستی آباد ہو گئی ۔
مسجد بابا مرشد ﺭﺿ نے اپنی قیام گاہ کے احاطہ میں ہی ایک مقام کو مسجد کے نام سے موسوم کیا ہوا تھا۔ یہاں بابا ہر اس شخص کو جو روحانی تکالیف میں مبتلا ہوتا نماز پڑھنے کا حکم دیتے چند ہی روز میں وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوجاتے ۔ نماز پابندی سے ادا کرتے اور سر خرو اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ اس مسجد میں جو بھی نماز پڑھ لیتا تھا روحانی تکالیف سے آزاد ہو جاتا اور نفسانی برائیوں سے پاک ہو جاتا۔
مدرسہ آپ نے آم کے ایک بڑے درخت کو مدرسہ کا نام دیا تھا۔ کند ذہن طلباءکو آپ وہاں بیٹھ کر پڑھنے کے لئے فرماتے ۔ اور ایک دو روز ہی میں ان کا شمار ذہین طلباءمیں ہونے لگتا ۔ سینکڑوں طلباءکو وہاں آکر فیض پہنچا اور وہ کتابی اور روحانی علم حاصل کر کے وہاں سے گئے ۔ ان میں سے بہت سے عہدیدار بنے، مولوی بنے، یہاں بھی کوٹی تخصیص نہیںتھی بلکہ مدرسہ ہر ایک کے لئے کھلا ہوا تھا۔ آج بھی مدرسہ کا فیض بابا مرشد ﺭﺿ کے کرم سے جاری ہے۔
شفاخانہ قیام گاہ کے مغربی سمت کوئی دو فرلانگ کے فاصلہ پر ایک آ م کا درخت ہے جسے بابا مرشد ﺭﺿ ہسپتال کہتے تھے۔ اگر کوئی لا علاج مریض بابا کے پاس آتا تو بابا اسے اس آم کے پیڑ کے نیچے قیام کرنے کا حکم دیتے۔ آ پ فرماتے ہمارے شفاخانہ میں داخل ہوتے اچھے ہوجاتے ۔ وہ لوگ وہاں جاتے بعض اسی وقت ٹھیک ہو جاتے۔ بعض دو چار روزوہیں رہ کر ٹھیک ہو جاتے۔ ایک بار ایک انگریز جو اپنی بیماری سے تنگ آچکا تھا بابا مرشد ﺭﺿ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ اتنا کمزور تھا کہ چل بھی نہیں سکتا تھا۔ بابا مرشدﺭﺿ نے اسے سوکھی روٹی دے کر کہا اسے پانی میں بھگو کر کھاﺅ اور ہسپتال میں رہو وہ انگریزپانی میں بھگو بھگو کر سوکھی روٹی کھاتا رہا ۔ یہاں تک کہ وہ بالکل تندرست ہو گیا۔ اس کے رشتہ دار جو اس سے ملنے آئے تو اسے پہچان نہ سکے۔
عدالت مدرسہ کے قریب ایک آم کے درخت کو بابا مرشد کچہری کہتے تھے، دنیاوی معاملات میں گرفتار اور پریشان آتے تو بابا ان کو کچہری میں ٹھہرنے کا حکم دیتے۔ جب تک بابا مرشد اسے چھٹی نہ دیتے وہ وہیں قیام کرتا۔ اسی آم کے پےڑ کے نےچے پڑار ہتا اور جب بابا کی اجازت پاکر گھر لوٹتا تو معاملہ ختم ہو چکا ہوتا۔ اس طرح سےنکڑوں نہیں ہزاروں عقیدت مندوں کی مسےحائی اور مشکل کشائی فر مائی ، کتنے ہی ایسے بابا کے بھگت تھے جن پر انگریزوں کی پولےس نے مقدمے قائم کئے ہوئے تھے۔ لیکن بابا مرشد کی عدالت میں آکر ان مقدموں سے نجات پاگئے۔ آج بھی لوگ وہاں آکر تار فائل میں اپنی عرضیاں لگا جا تے ہیں اور فےض اٹھارہے ہیں اس طرح کبھی آپ واکی شریف اور کبھی راجہ صاحب کے محل شکردرہ میں قیام فرماتے رہے۔ اس کے علاوہ واکی شریف میں ایک جگہ کو آپ نے پرےڈ گراﺅنڈ بنارکھا تھا۔
میٹھا نیم: ایک دن بابا مرشد ﺭﺿ اپنے ڈےر ے کے قریب ایک نےم کے نےچے بیٹھے تھے کہ ایک مرےض خدمت میں حاضر ہوا۔ باباصاحبﺭﺿ نے اسے حکم دیا ? اس کے پتے توڑتے اور کھلیتے۔? اس شخص نے نیم کے درخت کی طرف دیکھا اور نیم کی کڑواہٹ کا خیال کر کے کھڑارہ گیا ۔ بابا مرشدﺭﺿ نے فرمایا ? کون کہتا ہے کہ اس کے پتے کڑوے ہیں جہاں اپنی نگاہ جاتی ہے سب میٹھا ہی میٹھا ہے۔ ? اس نے بابا کا حکم پا کر ایک ٹہنی سے کچھ پتے توڑ کر چبائے اور حیرت میں پڑ گیا واقعی کڑواہٹ کا نام نہ تھا ، پتے میٹھے تھے۔ تب سے کتنے ہی آنے والے اس پیڑ کے میٹھے پتے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ان سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ ان کی بیماری دور ہو جاتی ہے۔
پریڈ گراﺅنڈ اس پریڈ گراﺅنڈ میںآپ بیرون ممالک جنگ کے دوران جن کے واقعات اس کتاب میں موجود ہیں ۔ کمان فرماتے تھے۔ واکی شریف کے شفاخانہ ، مدرسہ ، مسجد ، پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زمین کے ان ویران ٹکڑوں پر جہاں سرکار بیٹھنے ،پڑھنے اور عبادت کرنے کا حکم فرماتے تھے۔ مراد مند کو وہاں تنہائی نصیب ہوتی تھی ۔ وہ پورے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو جاتا تھا۔ سرکار اسے ادھر رجوع فرما کر باری تعالیٰ سے عرض کرتے تھے اور وہ کامیاب ہو جاتا تھا۔ بزرگوں کے رموزو اسرار یہی ہوتے ہیں ۔
پھر سے شکردرہ کو واپسی
واکی کے دوران ِ قیام بھی راجہ رگھوجی پابندی سے بابا مرشد کی خدمت میں آتے تھے اور ان کی خدمت کو اپنے لئے سب سے بڑا سرمایہ سمجھتے تھے۔ راجہ صاحب کا اخلاص اور ان کی نیاز مندی ایک بار پھر بابا تاج الدین ﺭﺿ کو شکردرہ کھینچ لے گئی۔ راجہ صاحب نے محل کی ایک کوٹھی لال محل آپ کے قیام کے لئے وقف کردی اور کئی خادم مقرر فرمائے تا کہ حضورﺭﺿ کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو ۔ گھمانے پھرانے کے لئے ایک بگھی معہ کو چوان ہر وقت حضور ﺭﺿ کے دروازے پر کھڑی رہتی ۔ لیکن بابا مرشد تو مست تھے ان کو ان تکلفات کی کیاضرورت تھی۔ ان کو جس کی لگی تھی ہر وقت وہی نظروں میں رہتا ۔ شکردرہ میں بابا مرشد راجہ رگھوجی کے محل میں ٹھہرے ۔ راجہ کا محل ناگپور اسٹیشن سے ڈیڑھ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ مرکزی سڑک سے ایک چھوٹی سڑک راجہ کے محل کو جاتی ہے ۔ اس سڑک کے دونوں کنارے جھونپڑیوں میں باباصاحب کے خدمت گزار اور فیض یافتگان رہتے تھے جنہیں عرفِ عام میں بابا مرشد کے بچے کہا جاتا تھا۔ یہ بابا مرشد کی شخصیت تھی جس نے شکردرہ کو ایک شہر کی مانند بنا دیا تھا اور یہاںہر وقت لوگوں کا میلہ سا لگار ہتا تھا۔