نماز بغیر نبی پاک ﷺ پر الصلوة والسلام پڑھے نہیں ہوتی۔ جب میت دفن کردیتے ھیں تو منکر نکیر کا پہلے سوالوں میں ایک سوال آپ ﷺ کے متعلق ہوتا ھے۔ حجہ الاسلام امام محمد غزالی قدس سراہ العالی کا نورانی ارشاد مبارک ہے:
واحضر فی قلبک النب صل اللہ علیة وسلم وشخصہ الکریم وقل السلام علیک ایحہا النب ورحمة اللہ و برکاتہ
یعنی التحیات پڑہتے وقت جب آپ السلام علیک ایھا النبی تک پہنچیں تو اپنے دل میں حبیب پاک ﷺ اور آپ کی ذات بابرکت کو حاضر سمجھیے اور (پھر) عرض کیجیے سلام علیک ایھا نبی ورحمة اللہ و برکاتہ ۔ اے (غیب کی خبریں دینے والے) نبی ﷺآپ (ﷺ) پر سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ھوں۔ (فائدہ:) حضور ﷺ نمازیوں میں موجود وحاضر ھوتے ہیں لہذا نمازیوں کو چاہیے کے حضور پاک ﷺکی خدمت میں سلام پیش کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ سید عالم ﷺموجود ھیں۔
حبیب پاک ﷺ ہمیشہ مومنو ں کے سامنے ہیں اور عابدوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ہر وقت اور ہر حالت میں خصوصاً عبادات کے وقت کیونکہ نورانیت کا موجود ہونا اور انکشاف اس وقت بہت زیادہ اور بہت قوی ہوتا ہے اور بعض عرفاء نے فرمایا ہے کہ یہ خطاب (السلام علیک ایھا النبی¸ ورحمة اللہ و برکاتہ) بوجہ جاری ہونے حقیقت محمدیہ کے ہے جو موجودات کے ذرہ ذرہ ہیں اور ممکنات کے ہر فرد میں جاری وساری ہے۔ تو حبیب پاک ﷺ نمازیوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں پس نمازی کو چاہیے کہ اس معنی سے آگاہ ہو اور اس حضور (حاضری) سے غافل نہ ہو تاکہ قرب کے انوار اور معرفت کے رازوں سے روشن اور فیض یاب ہو۔
اہل عرفان کے طریقہ پر یہ بھی کہا جا سکتا ھے کہ جب نمازیوں نے التحیات کے ساتھ ملکوت کا دروازہ کھلوایا تو انھیں حی لایموت کی بارگاہ میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی ۔ ان کی آنکھیں فرحت مناجات سے ٹھنڈی ہوئیں تو انہیں اس بات پرتنبیہ کی گئی کے بارگاہ خداواندی میں جو انہیں یہ شرف بازیابی حاصل ہوئی ہے یہ سب نبی رحمت ﷺ کی برکت متابعت کا طفیل ہے ۔ نمازیوں نے اس حقیقت سے باخبر ہوکر بارگاہ خداوندی میں جو نظر ا’ٹھائی تو دےکھا کہ حق تعالی کے حرم میں حبیب پاک ﷺ حاضر ھیں ۔ پیارے آقا کو دیکھتے ہی السلام علیک ایھا النبی¸ ورحمة اللہ و برکاتہ کہتے ہوئے پیارے آقا ﷺ کی طرف متوجہ ہوئے۔
قرآن کریم سے حبیب پاک ﷺ کے حاظر وناظرہونے کا ثبوت
ویکون الرسول علیکم شھیدا (پارہ ۲ البقرہ ۳۴۱)ترجمعہ: اور یہ رسول (ﷺ ) تمہارے گواہ (اور تم پر حاضر وناظر ہیں)۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللھ عنھ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ھل ترون قبلتی ھہنا واللہ ما یخفی علی رکوع کم ولا خشوع کم وانی لا راکم وراء ظھری(رواہ البخاری ۔ص۲۰۱) یعنی تم یہ سمجھتے ہو کہ میرا رخ ٓ قبلے کی طرف ہے ۔اللہ کی قسم نہ تمہارا رکوع مجھ پر مخفی ہے اور نہ تمہارا خشوع۔(جو دل کی کیفیت ہے اور سینہ کا راز) مجھ سے پوشیدہ ہے اور بے شک میں تمہیں ُٓ اپنے ُٰپیٹھ پیچھے دیکھتا ہوں۔
حضرت عقبہ رضی اللھ عنھ بن عامر سے روایت ہے کہ حبیب پاکﷺ فرماتے ہیں:(ان موعدکم الحوض وانی لا نظرالیہ وانا فی مقامی ھذا) ۔ترجمہ:تمہاری ملاقات کی جگہ حوض کوثر ہے اور جنت ساتوں آسمانوں سے اوپر ہے تو جس ذات اقدس کی نظر ساتوں آسمانوں کے پار جاتی ہے تو زمین کا کونسا گوشہ ان سے مخفی ہے۔کوئی نہیں۔
حضرت ابو درداء رضی اللھ عنھ سے روایت ہے فرمایا:( کنا مع رسول اللہ ﷺ فشحض ببصرہ الی السماءثم قال ھذا اوان یخلس فیہ العلم من الناس حتی لا یقبروا منہ علی شیئ) ۔ترجمہ:ہم حضور الصلوة والسلام کے ساتھ تھے کہ آپ نے اپنی نظر مبارک آسمان کی طرف اٹھائی اور فرمایا کہ یہ وقت ہے(مافی المستقبل کو اپنی آنکھ سے دیکھا) جبکہ علم لوگوں سے چھین لیا جائے گا۔حتیٰ کہ اس پر بالکل قابو نہ پائیں گے۔(رواہ ترمذی ۔باب العلم)
حضرت اسامہ بن زید رضی اللھ عنھ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضورﷺ مدینہ پاک کی پہاڑیوں میں سے کسی پہاڑی پر چڑھے پھر فرمایا:”جو میں دیکھ رہا ہوں کیا تم بھی دیکھتے ہو؟ “عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللھ (صلی اللھ علیھ وسلم) ۔فرمایا،”میں تمہارے گھروں میں بارش کی طرح فتنے گرتے دیکھتا ہوں۔“(رواہ البخاری ومسلم)
حضرت ابو ذر رضی اللھ عنھ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:(انی اری مالا ترون ما سمع ما لاتسمعون)۔ترجمہ:” میں دیکھتا ہوں وہ جو تم نہیں دیکھتے اور سنتا ہوں وہ جو تم نہیں سنتے“۔(رواہ احمد ترمذی وابن ماجہ)۔ٓان احادیث سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ کی چشم دوربین و غیب بین اندھیرے میں بھی دیکھتی ہے۔آگے پیچھے برابر دیکھتی ہے۔بعد پردہ پوشی کے بھی ہمیں دیکھتی ہے۔حوض کوثر کو دیکھتی ہے۔سلب علم والے زمانے کو دیکھتی ہے۔آنے والے فتنوں کو دیکھتی ہے۔آئیے اب وسعت نظر سیدنا محمد مصطفیٰﷺ کے متعلق ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللھ عنھ سے روایت ہے کہ حضور سید الرسل ناظر کل ﷺ نے فرمایا:ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے دنیا کو پیش فرمادیا ہے تو میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کو ایسے دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی ہتھیلی کو دیکھتا ہوں۔(جمع الجو امع)
یہ حدیث بطور تائید پیش کی گئی ہے کہ حبیب پاک ﷺ حاضر وناظر ہیں، اوراس سند کی تا ئید ہوتی ہے، جو آیات قرآنی ’ انا ارسلنک شاھداً‘ اور’ النبی اولیٰ بالمومنین من انفسھم‘ اور ’جئنا بک علی ھولاءشھیداً‘۔اب بعد کتاب اللہ یعنی صحیح بخاری(کما یقولون) کی ایک حدیث دیکھیں جس سے مسئلہ قدرت و تصرف اور مسئلہ رویت اور مسئلہ سمع پر خاص روشنی پڑ تی ہے۔شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللھ عنھ سے روایت ہے حبیب پاکﷺ نے فرمایا کہ،ترجمہ: (بے شک اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس نے میرے ولی سے دشمنی کی میں نے اس کو اعلان جنگ فرما دیا اور جن چیزوں کے ذریعے بندہ مجھ سے نزدیک ہوتا ہے ان میں سب سے زیادہ محبوب چیز میرے نزدیک فرائض ہیں۔اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میری طرف ہمیشہ نزدیکی حاصل کرتا رہتا ہے۔یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں۔تو جب میں اسے محبوب بنا لیتا ہوںتو میں اس کے وہ کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی وہ آنکھیں ہو جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے وہ ہاتھ ہو جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے وہ پاﺅں ہو جاتا ہوںجن سے وہ چلتا ہے۔اور اگر وہ مجھ سے(جو) کچھ مانگتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں۔اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرتا ہے تو میں اسے ضرور ضرور پناہ دیتا ہوں۔ جس چیز کو میں کرنے والا ہو تا ہوں اس میں توقف اور تردد نہیں کرتا جیسا کہ نفس مومن کے قبض کرنے میں تردد کرتا ہے۔وہ مومن بحکم طبیعت موت کو مکروہ سمجھتا ہے اور میں اس کی غمگینی کو نا خوشی سمجھتا ہوں۔حالانکہ موت سے اس کو چارہ نہیں۔“
ٓ امام فخر الدین رازی(متوفی606ھ) اس حدیث شریف کی یوں تشریح فرماتے ہیں:ترجمہ:جب کوئی بندہ نیکیوں پر ہمیشگی کرتا ہے تو اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے’کننت لہ سمعا و بصرا فرمایا ہے۔جب اللہ تعالیٰ کے جلال کا نوراس(ولی) کے کان بن جاتے ہیں تو وہ دور اور نزدیک کی آوازیں سنتا ہے ۔اور جب یہی نور اس (ولی) کی آنکھیں ہو گیا تو وہ دوراور نزدیک کی چیزوں کو دیکھتا ہے اور جب یہی نور جلال اس(ولی) کا ہاتھ ہو جاتا ہے تو یہ ولی مشکل اور آسان،دور اور قریب چیزوں میں تصرف کرنے پر قادر ہوتا ہے۔