ام المئمنین حضرت صفیہؓ کا تعلق مشہور یہودی قبیلے بنو نضیر سے تھا۔والد کا نام حییی بن اخطب بن شعبہ بن نفلیہ ھے۔ حضرت صفیہؓ کے والد حضرت ھارونؑ کی اولاد میں سے ھیں۔غزوہ خیبر کی فتح کے بعد اسیران جنگ میں یہ بھی تھیں۔سیدہ صفیہؓ کو آزاد فرما کر سن ۷ھ کو آپؐ نے حبالئہ عقد میں لیا۔پہلے وحیہ کلبیؓ کے حصے میں آئیں،صحابہ کرامؓ نے کہا کہ وہ قریظہ بنو نضیر کی سیدہ ھیں اس لئے رسول اللہؐ انھیں اپنے لئے لیں۔
حضور اقدسؐ حضرت صفیہؓ کے خیمے میں تشریف لے گئے تو احترام میں انھوں نے آپؐ کے لئے اپنا بستر بچھا دیا اور خود زمین پر بیٹھ گئیں۔حضور سرور کونینؐ نے فرمایا کہ تمھارے باپ نے ھمیشہ ھم سے عداوت رکھی ھے۔ حضرت صفیہؓ نے فرمایا کہ اللہ ایک کے گناہ کے بدلے دوسرے کی گرفت نہیں کرتا۔حضور سرور کونینؐ نے انھیں اختیار دیا کہ آزاد ھو کر چاہیں تو واپس لوٹ جائیں اور چاہیں تو اسلام قبول کر کہ آپؐ کے نکاح میں آ جائیں۔
انھوں نے عرض کی،مجھے اسلام کی تمنا پہلے سے تھی اور آپ کی دعوت سے پہلے ھی میں آپ کی تصدیق کرتی تھی۔مجھے اللہ اور اسکا رسول سب سے محبوب ھیں اور مجھے اپنے قوم و مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں۔
اس کے بعد آپؐ نے ان سے نکاح فرمایا،آپ کی آزادی ھی آپ کا مہر تھی اور آپکی عمر مبارک اس وقت صرف ۱۷ برس تھی۔ایک روایت میں ھے کہ حضرت صفیہؓ نے فتح خیبر سے قبل خواب دیکھا تھا کہ چودھویں کا چاند آپ کی آغوش میں آ گرا ھے۔جب آپ نے اسکا ذکر اپنے شوہر سے کیا تو اس نے زور سے ایک طمانچہ حضرت صفیہؓ کو رسید کیا اور کہا کہ کیا تو یہ خواہش رکھتی ھے کہ تو اس بادشاہ کی بیوی بنے جو اس میدان میں فروکش ھے۔ اس طمانچے کا نشان آپ کے چہرے مبارک پر نکاح کے وقت بھی موجود تھا،آپ نے سارا واقعہ آنحضورؐ سے بیان کیا۔
فضائل حضرت صفیہؓ
آپ حسن و جمال میں بے مثل تھیں جب مدینہ منورہ تشریف لائیں تو انصار کی بہت سی خواتین آپ کو دیکھنے آئیں،حضرت عائشہؓ بھی نقاب پہنے ان میں موجود تھیں آپؐ نے انھیں پہچان لیا جب وہ باہر آئیں تو آپؐ نے نے نقاب اٹھایا اور پو چھا کہ،اے حمیرا،تم نے صفیہ کو کیسا پایا؟کہا،ایک یہودیہ ھے یہودی عورتوں میں بیٹھی تھی۔فرمایا ایسا کیوں کہتی ھو جبکہ وہ مسلمان ھے اوراسلام قبول کر چکی ھے۔
ایک بار حضرت عائشہؓ نے آنحضورؐ سے کہا کہ آپ کو تو صفیہ ھی کافی ھے۔آپ نے اس بات کو شدید نا پسند فرمایا اور فرمایا کہ،تم نے وہ بات کہی کہ اسے اگر دریا میں ڈالیں تو اسکا رنگ بدل جاۓ۔
ذکر ھے کہ ایک بار آپؐ حضرت صفیہؓ کے پاس تشریف لے گۓ تو آپؓ رو رھی تھیں آپؐ نے دریافت کیا تو عرض کی ،عائشہؓ اور حفصہؓ میرے پاس آتی ھیں اور مجھے تنگ کرتی ھیں کہ ھم صفیہ سے بہتر ھیں،ھم حضورؐ کے عالی نسب سے ھیں۔حضور سید المرسلین نے فرمایا کہ تم نے ایسا کیوں نہ کہا کہ ،تم کس طرح بہتر ھو؟جبکہ میرے باپ ھارون،چچا موسیٰ اور شوہر محمدؐھیں۔
روایت میں آتا ھے کہ ایک دفعہ کسی سفر میں حضرت صفیہؓ کا اونٹ تھک گیا،حضرت زینبؓ کے پاس دو اونٹ تھے آپؐ نے ان سے فرمایا کہ ایک صفیہؓ کو دے دو جس پر انھوں نے کہہا کہ میں کسی یہودیہ کو اپنا اونٹ نہیں دوں گی۔آپؐ اس پر ان سے ناراض ھو گۓ اور دو یا تیں ماہ تک ان سے قطع تعلق رھے۔
جب آنحضورؐ کے وصال کا وقت قریب تھا تو حضرت صفیہؓ نے محبت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ،اللہ کی قسم میں اس چیز کو مھبوب رکھتی ھوں کہ آپ کا یہ مرض مجھے لگ جاۓ۔یہ سن کر ازواج مطہرات ایک دوسرے کو اشارہ کرنے لگیں،آپؐ نے اس بات پر بہت ناراضگی اور کراہت فرمائی اور فرمایا کہ،اللہ کی قسم صفیہؓ اپنے دعوٰے میں سچی ھے۔
وصال مبارک
آپ کے وصال مبارک کے بارے میں روایات کچھ مختلف ہیں کہیں ۵۵ھ اور کہیں ۵۰ھ بیان ھوا ھے۔مزار مبارک جنت البقیع میں ھے۔