ﷲ تعالی نے اپنی کائینات میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے، طرح طرح کی نعمتیں غزاوں میںہے۔ جن کو پیارے رسول ﷺ نے شرف قبولیت وپسندیدگی بخشا یقینا اُن غِذاوں کے خواص بنی نوع انسان کے لیئے فائدہ مند ثابت ہوئی ہیں۔ یہ بات تو لازم ملزوم ہے جس غذا کی تعریف وافادیت نبی کریم ﷺ نے بیان فرما دی ہے ، اس کے اثرات کسی بھی طرح انسان کے لئیے مضر نہیں ہوسکتے-
دنیا شاہد ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ِحیات ہے، اس میں زندگی کے ہر پہلو کے لیئے آگاہی اور رہنمائی ملتی ہے۔ اسلام کے حفظانِ صحت کے اصولوں پرعمل پیرا ہوکر ہر شخص اپنی صحت وتندرستی تاحیات برقرار رکھ سکتا ہے ، اور ہموقت حبیب پاک ﷺ کی سنت پر چلنے کا ثواب حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ کے محبوب ﷺ نے انسانی صحت کو قائم رکھنے کے جو زریں اصول بیان فرمائے ہیں وہ تمام انسانوں کہ لیئے بہتر اور کافی ہیں۔
آج دنیا کے طبی ماہرین جدید خطوط پر اور جدید مشاہدات کی روشنی میں انسانی صحت کو قائم اور درست رکھنے کے نت نئے اصول اور ضابطے مرتب کرتے ہیں۔ لیکن تاریخ اس بات کی شاہد کہ اللہ کے پیارے حبیب ﷺ نے حفطانِ صحت کے جو اصول آج سے چودہ سو چھبیس (1427) سال پہلے بیان فرما دیئے ہیںاُن کی حقیقتوں کا اعتراف زمانے کے ہر دور مے ہوا ہے، اور انہی اصولوں کو بنیاد بناکر قدیم اور جدید ماہرین ِطب نے اپنے تجربات کیئے ہیں۔
کسی دوا کے بغیر غذاوں کے استعمال سے ہی انسانی صحت کو درست رکہنے کی درخشندہ مثال صرف دین اسلام میںہی ملتی ہے۔ہمارے پیارے حبیب پاک ﷺ نے جن غذاوں کو خود تناول فرما کر پسندیدگی کا اظھار کیا اُن کے بارے مے تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ غذائیں انسانی جسم کی تعمیراور نشونما میں بہترین کردار ادا کرتی ہیں۔
گویہ موضوع اتنا طویل ہے کے اس پر لاتعداد صفحات لکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن کوشش یہی کی گئی ہے کہ پیارے حبیب پاک ﷺ کی ہر پیاری غذا کا مختصر مگر ایسا جامع بیان کردیا جائے جسے پڑھ کر قاری آسانی سے اسکے ہرپہلو سے روشناس ہوجایے-
پیارے حبیب پاک ﷺ نے اپنی پیاری غذاوں میں حلال اور طیب چیزوں کو پسند فرمایا جو اللہ تعالی نے دین اسلام میںحلال قراردی ہیں۔
حبیب پاک ﷺ دودھ کے فوائد بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کھانے پینے کا بدل دودھ کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی ہے، پھر ارشاد فرمایا ِ، جسے اللہ تعالی نے دودھ کی نعمت پینے کو مرحمت فرمائی ہو تو وہ پیتے وقت یہ دعا پڑھے:
﴿الہم بارک لنا فیہ وزدنا منہ﴾
ےا اللہ ! ہمیں اس میں برکت عطا فرما، اور اس سے بھی زیادہ عطا فرما ۔
خوردونوش کی کثرت ِحرص اور بے صبری کی علامت ہے ، اور بسیار خوری کتنے ہی دنیاوی واخروی مضرات کا سبب ہے اور اس سے جسمانی ، روحانی اور دماغی امراض پیدا ہوجاتے ہیں اور اس کی کمی قانع اور نفس پر قادر ہونے کی دلیل ہے اور حکماء کے نزدیک طعام کی کمی جسمانی صحت ، صفائی قلب اور ذہن کی تیزی کا سبب بنتی ہے ۔
سیدنا حضرت مقدام بن معد یکرب رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’ابن آدم نے اپنے پیٹ سے زیادہ برا برتن کوئی نہیںبھرا‘ آدمی کے لئے وہی چند لقمے کافی ہیں جو اس کی کمر کو سیدھا رکھیں اگر ضرورت ہو تو تہائی شکم طعام کے لئے، تہائی پانی کے لئے اور تہائی سانس کے لئے خالی رکھے۔ یہ اس لئے فرمایا گیا ہے کہ کھانے پینے کی زیادتی سے نیند کی کثرت پیدا ہوتی ہے اور زیادہ سونا جسم کو سست اور کمزور کرتا ہے، اور اس سے عقل و فہم کا زوال ہوتا ہے۔
اکثر بزرگان دین کا قول ہے کہ زیادہ نہ کھایا کرو ورنہ زیادہ پانی پینا پڑے گا ، زیادہ سونا پڑے گا اور زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔
ُحبیب پاک ﷺ سے مروی ہے کہ سب سے پسندیدہ کھانا وہ ہے جس کہ کھانے میں بہت سے ہاتھ شامل ہوں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں:
رسول اللہ ﷺنے کبھی اتنا نہیں کھایا کہ آپ شکم سیر ہوئے ہوں اور آپ دولت خانے میں ہوتے ہوئے گھر والوں سے کبھی کھانا نہیں طلب فرمایا کرتے تھے اور نہ اس کی خواہش ظاھر فرمایا کرتے تھے۔ اگر گھر والوںنے کھلا ديا تو کھالیا اور جو کھلا یا وہی کھالیا ۔