دورحاضرمیں انسان پیچیدہ مسئلہ مسائل سے دوچار ہے جس میں غر بت ،بھوک و افلاس ،خون ریزی و دہشت گردی، نت نئی بیماریاں اور دین اسلام سے غفلت بلخصوص تکمیل انسانیت کے پروان چڑھنے کے درمیان حائل ہیں۔ان مسائل کے معنوی و حقیقی حل کے لیے کوئی بھی صوفی سلسلہ یا تنظیم ایک کشادہ فہم ،اطمینان بخش اور جا مع تدبیر، اپنے مرشد کا مل کے بتائے ہوئے طور طریق کے مطا بق ،جو کہ وحدہُ لا شریک اللہ تبارک و تعا لیٰ کے حکم کے عین مطابق ،اور اطاعت سنت رسولﷺ کے اقوال و افعال کی پیروی کی عکا سی کرتے ہوئے تعلیم فرماتے ہیں۔
مشائخ اسلام نے اپنی کڑی محنت و مجا ہدات کی پُر نور روشنی میں اسکا جواب مختلف ادوار کے عام فہم مخلوق خدا کے لیے ان کےمعیا ر عقل کے مطا بق واضح کیے ہیں۔اپنے دور کے مشہور تالیف اسلام اور شیخ اسلام نے حضرت ابراہیم بن حو لدرقی نے اپنی کتاب میں اس کے ایک سو سے زائد جوابات جمع کیے ہیں۔اختصاراََچند ایک نقل کیے جاتے ہیں۔
تصوف ان کریمانہ اخلاق کا نام ہے جو کسی کریم زمانے میں کسی کریم شخص سے شریف لوگوں کے سامنے ظہور پزیر ہوں۔
حضرت جنید بغدادی کے استاد حضرت محمد بن علی القصاب
تصوف یہ ہے کہ مخلوق سے منہ موڑ لے اور اللہ سے رشتہ جوڑ لے۔
حضرت جنید بغدادی
تصوف یہ ہے کہ تو اپنے نفس کواللہ کے ساتھ اس طرح چھوڑدے کہ وہ جو چا ہے اس کے ساتھ کرے۔
حضرت رویم
تصوف یہ ہے کہ نہ تو کسی چیز کا مالک ہو اور نہ کوئی چیز تمھاری مالک ہو۔
حضرت سمنون
تصوف نام ہے ہر قسم کے اچھے اخلاق کے اندر داخل ہو نے کا اور ہر قسم کے کمینے اخلاق کے باہر نکل جانے کا۔
حضرت ابو محمد جریری
تصوف یہ ہے کہ بندہ ہر لمحہ ایسے عمل میں مشغول ہو جو اس لمحے کے لیے ذیا دہ منا سب ہو۔
حضرت عمر بن عثمان مکی
تصوف اچھے اخلاق کا دوسرا نام ہے ۔جو اچھے اخلاق میں تجھ سے ذیا دہ ہے وہ تصوف میں ذیا دہ ہے۔
حضرت محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالبﷺ
تصوف ایسے اخلاق کو کہتے ہیں جس سے رب راضی ہو۔
حضرت ابو علی قزدینی
تصوف علم و فن کا نام نہیں مجموعہ اخلاق کا نام ہے۔
حضرت ابو الحسن نوری
تصوف باطن کی گندگی اور کدورتوں سے پاکیزگی حا صل کرنے کا نام ہے۔
حضرت احمد خضروبہ
تصوف اپنے احوال کو سچ پر قائم رکھنے کا نام ہے۔
حضرت محمد بن المکسری
تصوف آداب ہی آداب ہے ۔ہر وقت کا آداب ،ہر جگہ کا آداب ،ہر حال کا آداب۔
حضرت ابو حفص نیشا پوری
تصوف ہر چیز کی حقیقت جاننے اور جو کچھ لوگوں کے پا س ہے اس سے ما یوس ہونے کا نام ہے۔
حضرت معروف کرخی
ایک وقت تھا تصوف حقیقت تھی بے نام ،آج نام ہے بے حقیقت۔
حضرت ابو الحسن شنجہ
تصوف درگزر کو اختیار کر نا ،اچھے کا موں کا حکم دینا اور
جا ہلوں سے اعراض کرنا ہے۔
حضرت ابو حمزہ بغدادی
تصوف یہ ہے کہ اجمالی معاملہ تفصیلی ہو جائے اور استدلالی معاملہ کشفی ہو جائے۔
حضرت خواجہ بہاﺅ الدین نقشبندی نجاری
تصوف شریعت پر اخلاص سے عمل کرنے کا نام ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی
تصوف کی ابتداءہے ?انماالعمال بانییات? ?بے شک اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے?۔?ا ن تعبداللہ کا نک ? ?یہ کہ اللہ کی عبادت کر گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے?۔
حضرت شیخ الحدیث محمد ذکریا
تصوف یہ ہے کہااللہ تبارک و تعا لیٰ کو عبادت سے رسولﷺ کویم کو اطا عت سے اور مخلوق خدا کو خدمت سے راضی کرو۔
حضرت مولانا احمد علی لا ہوری
خلاصہءکلام
اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظیم و شان نعمت انسانی حیا ت ہے جو کہ صرف ایک دفعہ کچھ مدت کے لیے ،پرکھنے کے لیے ،سینچنے کے لیے ،اور اطوار اسلام کے عین مطا بق ڈھا لنے کے لیے عطا کی جاتی ہے ۔اس حد کی انمول مثال کوئلے کی کان میں موجود ہیرا بغیر کسی تراش و خراش کے موجود ہو۔انسان کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہوئی کہ اس انمول عطا کو اسلامی اصولوں کے عین مطا بق ،اقوال و افعال رسولﷺ کویم کے سانچے میں ڈھالے۔اللہ تبا رک و تعا لیٰ کی محبت اور ر حیمی اس مخلوق سے اس طرح محسوس ہو تی ہے کہ کہیں حضرت انساں کو ?انی جاعل فی الارض خلیفہ ? سے خطاب کیا اور کہیں ?ولقد کرمنا? کا تاج پہنایا۔اور کہیں ?فضلنا? کا ہار گلے میں ڈال کر عزت افزائی کی۔جب اتنی رحمتوں ،برکتوں اور عنایتوں کا بدل سوچا جائے تو حضرت انساں کسی بھی حال میں اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا نہ کر سکے۔قرآن پاک میں اس بات کو یوں بیان فرمایا گیا۔ ?فبئی اعلیٰ رب کما تکزبان? ?اور تم اللہ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاﺅ گے۔
حاصل کلام
تمام دلائل و افکار سے یہ بات ثابت ہو چکی کہ تصوف ایک صفت انسانی ہے۔جس کے نکھار کی ترکیب اللہ وحدہُ لا شریک کی خشوع وخضوع سے عبادت،یعنی اپنی عبادت کی لَو کو تقویت دینا اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظیم و شان نعمت یعنی انسانی حیات کو رسولﷺ کریم کے اسوہءحسنہ کی اطا عت کے عین مطا بق ڈھلنا ہی تصوف ہے۔